سوال:
مفتی صاحب ! میں نے گھر خریدتے وقت ایک دوست سے پندرہ لاکھ قرض لیے تھے، جو میں قسطوں میں ادا کر رہا ہوں، اب تک پانچ لاکھ ادا کر چکا ہوں اور دس لاکھ باقی ہیں، میری دکان میں بھی دس لاکھ کا سامان ہے اور دو تولہ سونا بھی میری ملکیت میں ہے، اس تناظر میں ارشاد فرمائیں کہ مکمل سرمائے کی زکوة ادا کی جائے گی یا اس میں سے قرض کی رقم منہا کر کے باقی بچنے والی رقم کی زکوة ادا کی جائے گی؟
جواب: آپ کے پاس دکان میں جو دس لاکھ روپے کا سامان تجارت اور دو تولہ سونا آپ کے پاس ہے، اس پر زکوۃ واجب ہے، البتہ آپ نے چونکہ طویل المیعاد قرضہ لیا ہوا ہے، اس لئے کل قرض کی رقم میں سے صرف وہ قسط منہا کی جائے گی جو رواں سال واجب الاداء ہے، قسط کی رقم کو منہا کرنے کے بعد باقی ماندہ اموال کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (260/2)
فارغ عن دین لہ مطالبٌ من جھۃ العباد سواء کان ﷲ کزکاۃ … ولو کفالۃ او موجلا
او موجلا عزاہ فی المعراج الی شرح الطحاوی وقال وعن ابی حنیفۃ لایمنع وقال الصدر الشھید لاروایۃ فیہ، زاد القھستانی عن الجواھر والصحیح انہ غیر مانع۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی