سوال:
مفتی صاحب ! ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے دس تولہ سونا لیا ہے، اور پہلے سے بیٹی کے پاس ڈھائی تولہ سونا موجود ہے اور اکثر کچھ نہ کچھ نقدی بھی ہوتی ہے، تو کیا اس ڈھائی تولہ کی زکوة دینی ہو گی، اسی طرح اس دس تولہ سونا کی زکوة دینے کے لیے سال گزرنے کا انتظار کیا جائے گا یا نہیں؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ آج کل بچیوں کے پاس کچھ نہ کچھ سونا چاندی اور نقدی ہوتی ہے، تو کیا ان زیورات پر بھی چاندی کے حساب سے زکوة دینی ہو گی؟
جواب: 1۔ واضح رہے کہ ایک مرتبہ نصاب زکوٰۃ کا مالک بن جانے کے بعد مال کے ہر ہر حصے پر علیحدہ علیحدہ مکمل سال گزرنا ضروری نہیں ہے، لہذا جب کوئی شخص نصاب زکوٰۃ کا مالک بن گیا تو سال مکمل ہونے کے بعد ،اس کی ملکیت میں موجود تمام قابلِ زکوٰۃ اثاثوں کا حساب کیا جائے گا، اگر وہ نصاب کے برابر یا زیادہ ہوں تو زکوٰۃ لازم ہوگی، درمیان سال میں آنے والی ہر ہر رقم پر علیحدہ علیحدہ سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ جب اس شخص کی بیٹی کے پاس ڈھائی تولہ سونا اور کچھ نقدی پہلے سے موجود ہے، تو اگر اس پر سال گزرگیا ہو تو ان ڈھائی تولہ کی زکوٰۃ کے ساتھ دس تولہ سونے کی زکوٰۃ بھی لازم ہوگی، ان دس تولہ سونے پر علیحدہ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے۔
2۔ اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو، اور اس کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں نقد رقم زائد از ضرورت یا مال تجارت یا چاندی بھی ہو اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہو، تو ایسے شخص پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر اس سونے کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں نقد رقم زائد از ضرورت یا مال تجارت یا چاندی نہ ہو، بلکہ درمیان سال میں رقم آتی رہی اور خرچ ہوتی رہی، تو ایسے شخص پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (302/2، ط: دار الفکر)
(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول.
البحر الرائق: (247/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله ونقصان النصاب في الحول لا يضر إن كمل في طرفيه) ؛ لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه إما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد وتحقيق الغناء، وفي انتهائه للوجوب.
بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الکتب العلمیة)
فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا....(ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر"
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی