سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! عمر کو پانچ شعبان کو پہلی تنخواہ ملی جس سے وہ صاحب نصاب بن گیا، مگر اس نے وہ رقم فوراً والدین اور رشتہ داروں میں خرچ کر دی، پھر ہرماہ یہی ترتیب رہی، بلکہ مہینے کے آخری ایام میں بسا اوقات قرض لینے کی بھی نوبت آجاتی تھی، مگر اس نے اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کی تاریخ اٹھائیس رمضان مقرر کی ہوئی ہے، تقریباً ہرسال اٹھائیس رمضان کو زکوٰۃ ادا کررہا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے یا اصلاح کی ضرورت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ چونکہ مذکورہ شخص کے پاس سال کے درمیان میں بنیادی ضرورت سے زائد رقم بالکلیہ ختم ہوگئی اور وہ قرض لینے پر مجبور ہوگیا تو چونکہ درمیانِ سال میں سارا کا سارا مال/ رقم ختم ہونے کی وجہ سے صاحبِ نصاب نہیں رہا، لہذا جب یہ شخص دوبارہ زکوۃ کےنصاب کے بقدر مال کا مالک بنے گا تو اُس تاریخ سے زکوۃ کی ادئیگی کے لیےنئے سال کا حساب شروع ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مبسوط السرخسی:(كتاب الزكاة، ج:2، ص:172، ط:دارالمعرفة)
"وإذا كان النصاب كاملا في أول الحول وآخره فالزكاة واجبة، وإن انتقص فيما بين ذلك وقتا طويلا ما لم ينقطع أصله من يده."
الھندیة: (170/1)
وتجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتأخیرہ من غیر عذر۔
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الزکوٰۃ، 272/2، ط: سعید)
وافتراضہا عمري : أي علی التراخي وصححہ الباقاني وغیرہ، وقیل فوري: أی واجب علی الفور وعلیہ الفتویٰ، کما في شرح الوہبانیۃ، فیأثم بتأخیرہا بلاعذر۔ قولہ: فیأثم بتأخیرہا … وقد یقال: المراد أن لایؤخر إلی العام القابل، لما في البدائع عن المنقی: إذا لم یؤدِّ حتی مضی حولان، فقد أساء وأثم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی