سوال:
مفتی صاحب ! اگر کسى غریب عورت کا شوہر لاپرواہ ہو، کام کاج نہ کرتا ہو اور اگر زکوٰۃ کی رقم دى جائے تو فوراً خرچ کر دیتا ہو، تو اگر اس رقم کو کسى دوسرے کاروباری شخص کے پاس کاروبار میں لگوا دیں اور وه رقم اس عورت ہی کے لیے ہو، تاکہ مستقل کچھ مہینہ کا خرچ اس عورت کو ملتا رہے، تو کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو تملیکاً یعنی مالک بنا کر دی جائے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرسکے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر زکوٰۃ کی رقم مستحق خاتون کو مالک بنا کر اس کے قبضے میں دی جائے اور پھر وہ اپنی مرضی سے خود یا کسی وکیل کے ذریعے کاروبار میں لگائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر تملیک نہیں پائی گئی تو زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (344/2، ط: دار الفکر)
"ویشترط أن یکون الصرف تملیکا لا إباحۃ".
تبیین الحقائق: (251/1- 252، ط: المطبعة الکبری الامیریة، القاھرة)
لأن الزكاة يجب فيها تمليك المال؛ لأن الإيتاء في قوله تعالى {وآتوا الزكاة} [البقرة: 43] يقتضي التمليك، ولا تتأدى بالإباحة حتى لو كفل يتيما فأنفق عليه ناويا للزكاة لا يجزيه بخلاف الكفارة، ولو كساه تجزيه لوجود التمليك.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی