عنوان: غیر رہائشی فلیٹ اور پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ کا حکم (4279-No)

سوال: مفتی صاحب ! میرے پاس دو فلیٹ ہیں، ایک مکمل طور پر بنا ہوا ہے، جہاں میں اپنے کنبے کے ساتھ رہتا ہوں، یہ فلیٹ بہت چھوٹا ہے، جب کہ دوسرا فلیٹ زیر تعمیر ہے، جہاں میں نے تقریباً اڑتالیس لاکھ روپے خرچ کر دیئے ہیں اور اب بھی کچھ رقم رہتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اپنے دوسرے فلیٹ کی زکوٰة ادا کرنے کی ضرورت ہے؟
یاد رہے کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ اس دوسرے فلیٹ کی تعمیر کے بعد یا تو خود اس میں شفٹ ہو جاؤں گا یا کرائے پر لگا دوں گا یا پھر اپنے دونوں فلیٹ کو بیچ کرایک بڑا نیا فلیٹ خرید لوں گا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ میں ایک ایسی تنظیم میں کام کرتا ہوں جہاں ہر ماہ میرے پی ایف کی ماہانہ کٹوتی ہوتی ہے اور اتنی ہی رقم میرے باس کی طرف سے ملائی جاتی ہے اور پھر یہ رقم شریعت پر مبنی سرمایہ کاری کی ایک اسکیم میں جمع ہوتی ہے، تو کیا مجھے آج تک کل جمع شدہ بیلنس کی زکوٰة ادا کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب: 1: صورت مسئولہ میں دوسرے فلیٹ کے بارے میں جب آپ کی کوئی نیت متعین نہیں ہے، تو دیکھا جائے گا کہ اگر آپ نے دوسرا فلیٹ تجارت کی نیت سے خریدا تھا، تو آپ پر اس کی زکوٰۃ لازم ہے، اور اگر آپ نے تجارت کی نیت کے بغیر رہائش وغیرہ کے لیے خریدا تھا، تو آپ پر اس کی زکوۃ لازم نہیں ہے۔
2: اگر پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی جبری ہے، تو جب تک فنڈ کی رقم آپ کو وصول نہ ہوجائے، اس وقت تک آپ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اور رقم وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی آپ پر واجب نہیں ہوگی، ایسی رقم پر زکوٰۃ کا وجوب اس وقت شروع ہوگا، جس وقت سے وہ رقم آپ کو وصول ہوجائے، البتہ اگر فنڈ کی کٹوتی آپ پر جبری نہیں ہے، بلکہ آپ نے اس کے لئے اپنے اختیار سے رقم کٹوائی ہے، تو اس صورت میں احتیاط اسی میں ہوگی کہ رقم وصول ہونے کے بعد آپ گزشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کردیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیة: (179/1)
الزکاۃ واجبۃ في عروض التجارۃ کائنۃ ماکانت، إذا بلغت قیمتہا نصاباً۔

الدر المختار: (182/3، ط: زکریا)
لا زکاۃ في ثیاب البدن واثاث المنزل ودور السکنیٰ۔

بدائع الصنائع: (کتاب الزکاۃ، 10/2، ط: دار الکتب العلمیة)
والزکوٰۃ إنما تجب في المال (إلی قولہ) في الخلافیات: کان ینبغي أن لا تجب الزکوٰۃ في دین مالم یقبض ویحول علیہ الحول إلا أن ما وجب بدلا عن مال التجارۃ أعطی لہ حکم المال؛ لأن بدل الشئی قائم مقامہ کأنہ ھو فصارکان المبدل قائم في یدہ وأنہ مال التجارۃ وقد حال علیہ الحول في یدہ ۔
والثاني: إن کان الدین مالاً مملوکاً أیضا لکنہ مال لا یحتمل القبض لأنہ لیس بمال حقیقۃ بل ہو مال حکمي في الذمۃ ومافي الذمۃ لا یمکن قبضہ فلم یکن مالاً مملوکاً رقبۃویدا فلا تجب الزکوٰۃ فیہ کمال الضمار، فقیاس ھذا أن لا تجب الزکوٰۃ في الدیون کلھا لِنقصان الملک بفواتِ الید إلا أن الدین الذي ھو بدل مال التجارۃ التحقق بالعین في احتمال القبض لکونہ بدل مال التجارۃ قابل للقبض والبدل یقام مقام المبدل والمبدل عین قائمۃ قابلۃ للقبض فکذا ما یقوم مقامہ وھٰذا المعنی لا یوجد فیما لیس ببدل رأساً ولا فیما ھو بدل عمّا لیس بمال وکذا في بدل مال لیس للتجارۃ علی الروایۃ الصحیحۃ أنہ لا تجب فیہ الزکوٰۃ مالم یقبض قدر النصاب ویحول علیہ الحول بعد القبض؛لأن الثمن بدل مال لیس للتجارۃ فیقوم مقام المبدل ولو کان المبدل قائماً في یدہ حقیقۃ لاتجب الزکوٰۃ فیہ فکذا في بدلہ بخلاف بدل مال التجارۃ ،انتھی۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 347 May 04, 2020
ghair rehaaishi / rehaaeshe flate or provident fund per zakat / zakaat ka / kaa hokom / hukum / hokum / hukom, Ruling on Zakat on non-residential flats and provident fund

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.