سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! ایک ادارہ قرض اس طریقہ پر دیتا ہے کہ وہ مقروض کے لیے کسی دوکان سے سامان خریدے گا، مثلاً تقریبا دو لاکھ کا سامان خریدے گا اوربعد میں وہی ادارہ (جو قرض دے رہا ہے) بعد میں مقروض سے پچاس ہزار اضافی یعنی دو لاکھ پچاس ھزار لے گا، تو کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ معاملہ بیع مرابحہ کی ایک صورت ہے جو کہ درج ذیل شرائط کے ساتھ کی جائے تو جائز ہے۔
١- سامان کی خریداری پر لگنے والا سرمایہ معلوم ہو۔
٢- سامان خرید کر دینے والا ادارہ خود یا اس کا وکیل اس سامان پر حسی طور پر قبضہ کرے، پھر لینے والے کے ہاتھ پر طے شدہ نفع کے ساتھ فروخت کر دے۔
٣- اگر سامان لینے والے کو خریداری کی ذمہ داری سونپی جائے تو ایسی صورت میں آپس میں وکالت کا معاھدہ ہونا چاہیے کہ سامان لینے والا پہلے اپنے مؤکل کے لیے قبضہ کرے گا۔
٤- اصل معاملہ اس وقت ہوگا جب سامان لینے والا سامان کو اپنے لیے قبضہ کر لے، لہذا اس سے پہلے پہلے فریقین کا معاملہ صرف خریدوفروخت کا وعدہ ہوگا۔
٥- اگر جانبین کے درمیان باقاعدہ وعدے کا معاہدہ طے پاتا ہے، تو اس میں فریقین میں سے دونوں کو یا کسی ایک کو اختیار دینا ضروری ہے کہ وہ کسی وجہ سے اپنے فیصلے کو کالعدم کر کے معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو کر سکے، تاکہ وعدہ بیع کی بیع کے ساتھ مشابہت نہ ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة)
"المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قولہ- والکل جائز".
فقه البیوع: (652/2)
"ثالثا: المواعدة ( وهي التي تصدر من الطرفين) تجوز في ييع المرابحة بشرط الخيار للمتواعدين كليهما أو أحدهما فإذا لم يكن هناك خيار فإنها لا تجوز...".
فی بحث المرابحة للآمر بالشراء، في قرار مجمع الفقه الإسلامي، الذي صدر في جمادى الأولى / ١٤٠٩ھ
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی