عنوان: صدقہ و خیرات میں فرق(4286-No)

سوال: مفتی صاحب ! صدقہ اور خیرات کرنے کے ثواب میں کوئی فرق تو نہیں ہے؟
اور رقم دیتے ہوئے ان دونوں میں سے کس کی نیت کرنی چاہیے؟

جواب: صدقہ مال کے اس حصے کو کہا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے خرچ کیا جائے۔لفظ صدقہ اپنے اصلی معنی کی اعتبار سے عام ہے، نفلی صدقہ کو بھی کہا جاتا ہے اور فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور واجب صدقہ یعنی نذر و صدقہ فطر کو بھی کہا جاتا ہے۔گویا صدقہ کی تین قسمیں ہیں۔
1۔ فرض جیسے زکوٰۃ
2۔واجب جیسے نذر اور صدقہ فطر
3۔ نفلی صدقہ جیسے عام صدقات وخیرات وغیرہ
ان تینوں میں درج ذیل فرق ہیں:
1۔ صدقہ نافلہ اور خیرات تو ایک ہی چیز ہے یعنی جو مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی خیر کے کام میں خرچ کیا جائے، وہ صدقہ و خیرات کہلاتا ہے اور اس میں اختیار ہے، اگر کرے تو ثواب ہے اور نہ کرنے پر گناه نہیں ہے، جبکہ صدقہ فرض یعنی زکوٰۃ اور صدقہ واجبہ یعنی نذر اور صدقہ فطر، اس کو ادا کرنا ضروری ہے، ادا نہ کرنے پر گناه ہوگا۔
2۔ نفلی صدقات وخیرات غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں، تاہم غریب زیادہ حق دار ہے، جبکہ صدقہ فرض اور واجبہ صرف مستحق زکوة ہی کو دیا جاسکتا ہے۔
3۔ نفلی صدقات اور خیرات کی ادائیگی کےلیے کوئی شرط نہیں ہے،جبکہ زکوة اور صدقہ فطر کی ادائیگی کےلیے شرائط ہیں، مثلا نصاب کامالک ہونا، سال کا گزرنا وغیرہ۔
4۔ صدقات نافلہ اور خیرات کسی سید اور غیر مسلم کو بھی دے سکتے ہیں، لیکن صدقہ فرض یعنی زکوة کسی سید اور غیرمسلم کو نہیں دے سکتے۔
5۔ صدقات نافلہ اور خیرات اپنے اصول یعنی والدین اور فروع یعنی اولاد اور بیوی کو دے سکتے ہیں، جبکہ زکوة اور صدقہ فطر اپنے اصول یعنی والدین اور فروع یعنی اولاد اور بیوی کو نہیں دے سکتے۔
6۔ صدقہ فرض یعنی زکوة اور صدقہ فطر صرف مال کے ساتھ خاص ہے، جبکہ نفلی صدقہ مال خرچ کرنے کے علاوہ بھی بہت سے نیک اعمال کو کہاجاتا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تبسمك في وجه اخيك لك صدقة، وامرك بالمعروف ونهيك عن المنكر صدقة، وإرشادك الرجل في ارض الضلال لك صدقة، وبصرك للرجل الرديء البصر لك صدقة، وإماطتك الحجر والشوكة والعظم عن الطريق لك صدقة، وإفراغك من دلوك في دلو اخيك لك صدقة۔(حدیث نمبر: 1956)
ترجمہ:
حضرت ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے“
خلاصہ کلام:
اگر صدقہ سے مراد فرض یا واجب ہے تو اس کا ثواب صدقہ نافلہ سے زیادہ ہے اور اگر صدقہ سے مراد نافلہ ہے تو صدقہ نافلہ اور خیرات ایک ہی ہیں ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور صدقہ دیتے وقت خالص اللہ کی رضا کی نیت ہونی چاہیے، ریا کاری ، دکھلاوا اور شہرت کی نیت نہ ہو اور جس کو دیا جارہا ہے، اس پر احسان نہ جتلایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 264)
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى....الخ

و قوله تعالی: (النساء، الایة: 114)
لاَّ خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاo
 
و قوله تعالی: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ".. الآية (التوبة: 60)

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2290)
عن زيد بن اسلم ، ان ابا صالح ذكوان اخبره، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار، فاحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره، كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالإبل؟، قال: ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها، ومن حقها حلبها يوم وردها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر اوفر ما كانت، لا يفقد منها فصيلا واحدا، تطؤه باخفافها وتعضه بافواهها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالبقر والغنم؟، قال: ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر، لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء، تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار،۔۔۔۔الخ

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 659)
عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ

التفسير المنير للشیخ وهبة الزحيلي: (77/3، ط: دار الفکر)
وكلّ هذا يدل على أن الإنفاق يكون للفقراء عامة، مسلمين أو غير مسلمين، وذلك نحو قوله تعالى: وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً. إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ، لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَلا شُكُوراً [الإنسان 76/ 8- 9] . والأسير في دار الإسلام لا يكون عادة إلا مشركا وقوله تعالى: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ، وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ [الممتحنة 60/ 8] . ويؤيد ذلك ما روي في الصحيحين عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: «قال رجل: لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فخرج بصدقته، فوضعها في يد زانية، فأصبح الناس يتحدّثون: تصدّق على زانية، فقال: اللهم لك الحمد: على زانية! لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فوضعها في يد غني، فأصبحوا يتحدّثون: تصدّق الليلة على غني، قال: اللهم لك الحمد: على غني! لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فخرج فوضعها في يد سارق، فأصبحوا يتحدّثون: تصدّق الليلة على سارق، فقال: اللهم لك الحمد، على زانية، وعلى غني، وعلى سارق، فأتي فقيل له: أما صدقتك فقد قبلت، وأما الزانية فلعلها أن تستعف بها عن زنا، ولعل الغني يعتبر، فينفق مما أعطاه الله، ولعل السارق أن يستعف بها عن سرقته

بدائع الصنائع: (47/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وَكَمَا لَا يَجُوزُ صَرْفُ الزَّكَاةِ إلَى الْغَنِيِّ لَا يَجُوزُ صَرْفُ جَمِيعِ الصَّدَقَاتِ الْمَفْرُوضَةِ وَالْوَاجِبَةِ إلَيْهِ كَالْعُشُورِ وَالْكَفَّارَاتِ وَالنُّذُورِ وَصَدَقَةِ الْفِطْرِ لِعُمُومِ قَوْله تَعَالَى {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ} [التوبة: 60] وَقَوْلُ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ» وَلِأَنَّ الصَّدَقَةَ مَالٌ تَمَكَّنَ فِيهِ الْخَبَثُ لِكَوْنِهِ غُسَالَةُ النَّاسِ لِحُصُولِ الطَّهَارَةِ لَهُمْ بِهِ مِنْ الذُّنُوبِ، وَلَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِالْخَبِيثِ إلَّا عِنْدَ الْحَاجَةِ وَالْحَاجَةُ لِلْفَقِيرِ لَا لِلْغَنِيِّ.
وَأَمَّا صَدَقَةُ التَّطَوُّعِ فَيَجُوزُ صَرْفُهَا إلَى الْغَنِيِّ؛ لِأَنَّهَا تَجْرِي مَجْرَى الْهِبَةِ

الموسوعة الفقهية الكويتية: (326/23، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
كُل مَنِ انْتَسَبَ إِلَيْهِ الْمُزَكِّي أَوِ انْتَسَبَ إِلَى الْمُزَكِّي بِالْوِلاَدَةِ.
وَيَشْمَل ذَلِكَ أُصُولَهُ وَهُمْ أَبَوَاهُ وَأَجْدَادُهُ، وَجَدَّاتُهُ، وَارِثِينَ كَانُوا أَوْ لاَ، وَكَذَا أَوْلاَدُهُ وَأَوْلاَدُ أَوْلاَدِهِ، وَإِنْ نَزَلُوا.

و فیھا ایضا: (109/44، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
الصَّدَقَةُ فِي اللُّغَةِ: مَا يُعْطَى فِي ذَاتِ اللَّهِ، أَوْ مَا يُعْطَى عَلَى وَجْهِ التَّقَرُّبِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى لاَ عَلَى وَجْهِ الْمَكْرُمَةِ، أَوْ مَا تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى الْفُقَرَاءِ . َفِي الاِصْطَلاَحِ هِيَ تَمْلِيكٌ فِي الْحَيَاةِ بِغَيْرِ عِوَضٍ  .
وَيَقُول الرَّاغِبُ الأَْصْفَهَانِيُّ: الصَّدَقَةُ مَايُخْرِجُهُ الإِْنْسَانُ مِنْ مَالِهِ عَلَى وَجْهِ الْقُرْبَةِ كَالزَّكَاةِ، لَكِنَّ الصَّدَقَةَ فِي الأَْصْل لِلْمُتَطَوَّعِ بِهِ، وَالزَّكَاةُ تُقَال لِلْوَاجِبِ .
وَالْغَالِبُ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ اسْتِعْمَال لَفْظِ الصَّدَقَةِ فِي صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 9357 May 04, 2020
sadqa wa / va khairat / khayraat me / mein farq / difference, The difference between charity / sadqa and khairat / khayraat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.