عنوان: ترکہ میں حقوق کی ادائیگی اور اس کی تقسیم کا حکم(4296-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک خاتون (جو سلائی کڑھائی کر کے کپڑے، بنیان وغیرہ بنا کر بیچتی تھیں) فوت ہو گئی ہیں، اب ان کے سلے ہوئے کچھ بنیان اور سوٹ وغیرہ رہ گئے ہیں، تو ان کے پسماندگان نے مجھے کہا ہے کہ میں ان چیزوں کو بیچ دوں اور انہوں نے ان چیزوں کی مقررہ قیمت بھی بتائی ہے، تو کیا میرے لیے بنیان وغیرہ کو اس طے شدہ رقم سے مہنگا بیچ کر اضافی نفع اپنے لیے رکھنا جائز ہو گا؟
مزید یہ بھی بتائیں کہ ان چیزوں کو بیچ کر ان سے حاصل ہونے والی رقم کو کہاں خرچ کیا جائے، اس میں بھی گھر والوں کا اختلاف ہو گیا ہے، ان کی بیٹیوں کا کہنا ہے کہ رقم کو ان کی والدہ کی قضاء نمازوں کی مد میں بطور فدیہ مسجد میں خرچ کیا جائے، جب کہ ان کے والد نے جو نئی شادی کی ہے، اس نئی دلہن کا کہنا ہے کہ رقم کسی غریب مستحق کو بطور ایصال ثواب دے دی جائے، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کس کی رائے زیادہ مناسب ہے؟

جواب: واضح رہے کہ مرحومہ نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی ساز وسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحومہ كا تركہ ہے۔
شرعا ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے:
سب سے پہلے میت کی تجہیز وتکفین کا خرچ اس ترکہ میں سے نکالا جائے، اگر کسی نے بطور احسان وہ خرچ ادا کر دیا ہے تو پھر اس کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد دیکھا جائے کہ میت کے ذمہ کسی کا کوئی قرض یا مالی حق ہو، تو اسے اس ترکہ میں سے ادا کیا جائے، پھر اگر کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصے کی حد تک پورا کیا جائے۔
اس کے بعد بقیہ ترکہ کو ورثا میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
مذکورہ صورت میں اگر مرحومہ نے اپنی نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
اگر مرحومہ نے نمازوں کے فدیے کی وصیت نہ کی ہو، لیکن تمام ورثاء باہمی رضامندی سے اپنے وراثتی حصے کو اپنی والدہ کی نمازوں کے فدیہ میں دینا چاہیں تو ایسا کرنا جائز، بلکہ اپنی والدہ کے ساتھ احسان اور باعث اجر ہوگا۔
یاد رہے اگر وارثوں میں کوئی نابالغ ہو، تو اس کی اجازت کا اعتبار نہیں ہے۔
نیز جب تک ورثاء کو ان کا وراثتی حصہ نہیں مل جاتا اس وقت تک آپ کا ان کپڑوں کو اضافی نفع کے ساتھ بیچنا درست نہیں ہے، البتہ ورثاء میں میراث تقسیم ہونے کے بعد، ان میں سے کوئی وارث اپنا حصہ آپ کو فروخت کے لیے دیتا ہے، تو اس کی اجازت سے نفع پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المبسوط للسرخسی: (کتاب الفرائض، 137/29، ط: دار الکتب العلمیة)
قال علماء نا رحمہم اﷲ، الدین إذا کان محیطا بالترکۃ یمنع ملک الوارث في الترکۃ، وإن لم یکن محیطا فکذلک في قول أبيحنیفۃ رحمہ اﷲ تعالیٰ الأول وفي قولہ الآخر: لایمنع ملک الوارث بحال؛ لأنہ یخلف المورث في المال، والمال کان مملوکا للمیت في حال حیاتہ مع اشتغالہ بالدین کالمرہون فکذلک یکون ملکا للوارث۔

الدر المختار: (کتاب الفرائض، 762/6، ط: سعید)
"ثم یقسم الباقی بعد ذٰلک بین ورثتہ الذی ثبت إرثہم بالکتاب أو السنۃ".

صحیح البخاری: (باب الوصیة بالثلث، رقم الحدیث: 2663)
عن سعد بن وقاص حدیثا طویلا و طرفہ: "فقلت: أوصی بالنصف، قال: النصف کثیر، قلت: فالثلث، قال: الثلث، والثلث کثیر أو کبیر، قال: فأوصی الناس بالثلث فجاز ذٰلک لہم".

مراقی الفلاح: (باب صلوۃ المریض، فصل في اسقاط الصلاۃ و الصوم)
"وإن لم یوص وتبّرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء الله تعالی".

رد المحتار: (باب صدقة الفطر، 359/2، ط: سعید)
"إذا مات من علیہ زکاۃ، أو فطرۃ، أو کفارۃ، أو نذر لم تؤخذ من ترکتہ عندنا إلا أن یتبرع ورثتہ وہم من أہل التبرع ولم یجبروا علیہ و إن أوصیٰ تنفذ من الثلث".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1761 May 05, 2020
tarka me / mein huqooq ki adaigi or / aur iski taqseem ka hukum / hukm, Ruling on payment / paying and distribution of inheritance rights

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.