سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے دوست نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ سید کو زکوۃ نہیں دے سکتے، سید کس کو کہتے ہیں؟ اور کیا انہیں زکوۃ نہیں دی جاسکتی؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: '' یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیےحلال نہیں ہے۔
لہذا سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں اور یہ بڑا اجر وثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعہ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔
جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (246/2، ط: سعید)
ولا یدفع إلی بنی ہاشم وموالہیم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ ولحدیث أبي داؤد مولی القوم من أنفسہم وأنا لاتحل لنا الصدقۃ أطلق في بني ہاشم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی