سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے اپنی بچیوں کی شادی کے لیے کچھ رقم اور زیورات وغیرہ رکھے ہوئے ہیں، جو میں ان کو شادی کی موقع پر دوں گی، تو کیا ایسی صورت میں ان زیورات اور پیسوں پر زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب: شادی کی غرض سے اگر رقم، سونا یا چاندی جمع کیے جائیں تو اس میں بھی زکوۃ واجب ہوگی، البتہ اگر والدین اولاد کو اس مال کا مالک بنا کر واقعی ان کو قبضہ دے دیں، پھر خود اس میں مالکانہ تصرف نہ کریں، تو والدین پر اس مال کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
اس صورت میں اگر اولاد نابالغ ہو تو ان پر بھی زیورات وغیرہ کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
ہاں! اگر وہ بالغ ہوں اور ان کی ملکیت میں جو مال ہے، وہ نصاب کو بھی پہنچ جائے، یعنی ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر سونا یا کیش یا مالِ تجارت ہو تو ایسی صورت میں اولاد پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا، ورنہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (185/1)
الزکاۃ واجبۃ علی الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملک نصاباً ملکا تاماً، وحال علیہ الحول لقولہ تعالی: {وَآتُو الزَّکَاۃَ} ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أدوا زکاۃ أموالکم، وعلیہ إجماع الأمۃ، والمراد بالواجب الفرض۔
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 57، 42/1، ط: اتحاد)
والتبرع لا یتم إلا بالقبض، فإذا وہب أحد لآخر شیئا لا تتم ہبۃ إلا بقبضہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی