سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے اپنی بچیوں کی شادی کے لیے کچھ رقم اور دو تولے سونے کے زیورات رکھے ہوئے ہیں، جو میں ان کو شادی کی موقع پر دوں گی تو کیا مجھ پر ان زیورات اور پیسوں کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ چونکہ ابھی تک وہ زیورات آپ نے بچیوں کی ملکیت میں نہیں دیے ہیں، لہذا اگر یہ زیورات اور رقم مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کے نصاب تک پہنچتے ہوں تو قمری سال گزرنے پر ان کی زکوة آپ کے ذمہ ہی لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (185/1)
الزکاۃ واجبۃ علی الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملک نصاباً ملکا تاماً، وحال علیہ الحول لقولہ تعالی: {وَآتُو الزَّکَاۃَ} ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أدوا زکاۃ أموالکم، وعلیہ إجماع الأمۃ، والمراد بالواجب الفرض۔
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 57، 42/1، ط: اتحاد)
والتبرع لا یتم إلا بالقبض، فإذا وہب أحد لآخر شیئا لا تتم ہبۃ إلا بقبضہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی