سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل مختلف قسم کی فلاحی تنظیم کام کررہی ہیں، جو جگہ جگہ دسترخوان لگا کر غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں، کیا ان کو زکوۃ کی مد میں رقم دی جاسکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوة کی رقم مستحق کو مالک بنا کردی جائے، تاکہ وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔
چونکہ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلانے کی صورت میں کھانا ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ حسب طلب کھالیں، باقی بچا ہوا کھانا انھیں اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، جسے عربی میں "اباحت" کہتے ہیں، اس لیے اس صورت میں "تملیک" نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔
نیز اس صورت میں مستحق افراد کی تعیین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
البتہ اگر مستحق زکوٰۃ کو کھانے کے پیکٹ وغیرہ بنا کر اس طرح ان کے حوالے کردیے جائیں کہ وہ چاہیں تو ابھی کھا لیں یا اپنے ساتھ لے جائیں، اس صورت میں زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الولوالجیة: (177/1)
رجل یعود یتیما فجعل یکسوہ ویطعمہ وجعل مایکسو او مایاکل عندہ من زکاۃ مالہ فالکسوۃ تجوز لوجود رکنہ وھو التملیک واما الاطعام ان دفع الطعام الیہ بیدہ یجوز ایضا لھذہ العلۃ وان کان لم یدفع الیہ ویاکل الیتیم لم یجز لانعدام الرکن وھو التملیک۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی