سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کسی شخص کے پاس کار یا اسی طرح کسی کے پاس بس، رکشہ، ٹیکسی وغیرہ ہو، تو کیا ان چیزوں پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب: اگر ذکر کردہ سواریاں ذاتی استعمال کے لیے ہوں، تو ان پر زکوۃ نہیں ہے، اور اگر کرایہ پر دی گئی ہوں، تو اس صورت میں اگر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سال کے آخر تک موجود رہے اور وہ تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہو تو اس پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے، اور اگر کرایہ کی رقم سال کے آخر تک نہیں بچتی، بلکہ خرچ ہوجاتی ہے، تو اس صورت میں اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الزکوٰۃ، 234/1، ط: زکریا)
فلیس في دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنزل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ … وکذا … وآلات المحترفین الخ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی