سوال:
محترم جناب مفتی صاحب!
السلام علیکم!
ہم نے اکثر علماء سے سنا ہے کہ بینک کی نوکری جائز نہیں، کیونکہ اس میں سود کا کاروبا ہوتا ہے، جس میں بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کاروبار کا حصہ دار بن جاتا ہے۔ آپ سے عرض یہ ہے کہ کیا شریعت اسلام میں بینک میں نوکری کرنا واقعی ناجائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بینک دو طرح کے ہوتے ہیں:
(1) سودی بینک (2) غیر سودی بینک
چونکہ غیر سودی بینک کے مالی معاملات کی نگرانی جید علماء کرام کررہے ہوتے ہیں، اس لیے غیر سودی بینک میں نوکری کرنے کی گنجائش ہے، تاہم وقتاً فوقتاً معلومات کرتے رہنا چاہئے، تاکہ اگر خدانخواستہ بینک کی طرف سے علماء و مفتیان کرام کے بتائے ہوئے طریقہ سے انحراف سامنے آئے تو بتایا جاسکے۔ جبکہ سودی بینک میں کام کرنے والے ملازمین سودی اور ناجائز معاملات میں معاون بن رہے ہوتے ہیں، اور شریعت میں ناجائز کام پر معاونت کرنا بھی منع ہے،اس لیے خاص طور پر سودی بینک کے ان شعبوں میں ملازمت جو براہ راست سودی لین میں مصروف عمل ہوں، جیسے: اکاؤنٹس، کیش وغیرہ، یہ ملازمت کرنا حرام ہے اور اس ملازمت سے ملنے والی آمدنی بھی حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالی: (المائدة، الایة: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی