سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص کو قرضہ دیا تھا اب وہ قرض واپس نہیں کرسکتا اور وہ مستحق بھی ہے، تو کیا اب اس کو زکوۃ کی رقم سے قرضہ معاف کرانے کا یہ طریقہ اپنانا درست ہے کہ وہ مقروض شخص گاؤں سے کسی کو کہے کہ میرے لیے زکوة کی رقم قبضہ کرلو اور پھر اس قبضہ کرنے والے سے کہے کہ یہ پیسہ اس فلاں شخص (یعنی قرضدار) کو دے دو، تو کیا اس طرح سے زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
جواب: اگر مستحق زکوٰۃ اپنے قرض خواہ سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے کسی شخص کو اس بات کا وکیل بنائے کہ وہ مستحق کی طرف سے زکوٰۃ پر قبضہ کرنے کے بعد مستحق کے قرض خواہ (جس نے زکوٰۃ دی ہے) کو دوبارہ وہ رقم اس کے قرضہ میں دیدے، تو ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا کرنے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور مستحق کا قرضہ بھی ادا ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (269/2)
’’قولہ اذا وکلہ الفقراء‘‘ لانہ کلما قبض شیئا ملکوہ وصار خالطا مالھم بعضہ ببعض ووقع زکوٰۃ عن الدافع، لکن بشرط ان لا یبلغ المال الذی بیدہ الوکیل نصابا۔ فلو بلغہ وعلم بہ الدافع لم یجزہ اذا کان الاٰخذ وکیلا عن الفقیر… قلت ھذا اذا کان الفقیر واحداً، فلو کانوا متعددین لابد ان یبلغ لکل واحد نصابا لان مافی یدالوکیل مشترک بینھم".
و فیه أیضا: (269/2- 270، ط: سعید)
"واعلم ان اداء الدین عن الدین والعین عن العین وعن الدین یجوز واداء الدین عن الٔعین ، و عن دین سیقبض لایجوز وحیلۃ الجواز ان یعطی مد یونہ‘ الفقیر زکاتہ ثم یأ خدھا عن دینہ قال فی الشامیۃّ تحت قولہ واعلم …الثانیۃ واداء دین عن دین سیقبض کما تقدم عن البحروھو مالوابرأالفقیر عن بعض النصاب ناویا بہ الا داء عن الباقی".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی