سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص نے ایک پلاٹ گھر بنانے کے لیے خریدا، پھر کچھ عرصہ بعد ایک دوسرا پلاٹ خریدا اور جگہ کی پسندیدگی کے باعث اس میں بھی نیت گھر بنانے کی ہی کی، اب پہلے پلاٹ کے بارے میں نیت یہ ہوگئی ہے کہ اس کو اچھی قیمت ملنے پر بیچ دے گا، بصورت دیگر بچوں کے لیے رکھا رہے گا، تو رہنمائی فرمائیں کہ کیا پہلے پلاٹ کی زکوة دینی ہو گی؟
جواب: واضح رہے کہ پلاٹ پر زکوة کے وجوب سے متعلق ضابطہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب نہیں ہوتی، اگر کوئی پلاٹ ابتداء میں رہائش کی نیت سے خریدا جائے، پھر بعد میں اُس کو بیچنے کا ارادہ ہو جائے تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکوة واجب نہ ہوگی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے گا، پھر اُس کی رقم پر زکوة کے ضابطہ کے مطابق زکوة واجب ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جو پلاٹ گھر بنانے کی نیت سے خریدا گیا ہے، تجارت کی نیت سے نہیں خریدا گیا ہے، اس پلاٹ پر زکوة واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی