عنوان: نابالغ سوتیلے بیٹے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو زکوۃ کی مد میں شمار کرنے کا حکم(4391-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میری دوسری اہلیہ کے پہلے شوہر سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹا جس کی عمر نو سال ہے اور اپنی نانی کے گھر رہتا ہے، ماں کی تحویل میں ہے اور باپ اس کی ذمہ داری نہیں اٹھاتا، اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ وہ بچہ میرے پاس ہو یا اپنی نانی کے گھر میں ہو، کیا میں اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو زکوة میں شمار کر سکتا ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ اگر اس نابالغ بچے کا حقیقی والد صاحب نصاب نہیں ہے، اور اس بچے کے پاس ان زیورات کے علاؤہ مال تجارت اور ضرورت سے زائد نقدی رقم چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، بھی موجود نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اگر آپ زکوٰۃ کی نیت سے اس بچے کو پیسوں اور کھانے وغیرہ کا باقاعدہ مالک بنا دیتے ہے، تو وہ بچہ چاہے جس کے پاس بھی رہتا ہو، ان خرچ ہونے والے پیسوں کو آپ زکوٰۃ میں شمار کرسکتے ہیں، لیکن اگر آپ اس بچے کو زکوٰۃ کی نیت سے باقاعدہ ان اخراجات کا مالک نہیں بناتے بلکہ صرف استعمال کی اجازت دیتے ہیں، تو اس صورت میں ان اخراجات کو آپ زکوٰۃ میں شمار نہیں کرسکتے، نیز اس سے پہلے جو اخراجات آپ نے اس بچے پر خرچ کئے ہیں، اگر اس بچےکو آپ نے زکوٰۃ کی نیت سے ان اخراجات کا باقاعدہ مالک بنا دیا تھا، تو آپ ان اخراجات کو زکوٰۃ میں شمار کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (339/2، ط: دار الفکر)
باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.
وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني

رد المحتار: (350/2، ط: دار الفکر)
(قوله: ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ ولو ذكرا صحيحا قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه نهر

و فیه ایضا: (344/2، ط: دار الفکر)
ویشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا إباحة کما مر.

و فیه ایضا: (269/2، ط: دار الفکر)
(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية أو دفعها لذمي ليدفعها لأن المعتبر للفقراء جاز نية الأمر ولذا لو قال هذا تطوع أو عن كفارتي ثم نواه عن الزكاة قبل دفع الوكيل صح

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 813 May 15, 2020
nabaliqh sotele /soteley bete / betey / son par kharch hone / honey wale / waley paisoo ko zakaat / zakat ki mad me / mey shumaar / count karne / karnay ka hokom / hukum / hukom / hokum, Ruling on counting / considering the money spent on a minor step-son as Zakat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.