resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کا حکم اور بیٹے کا اپنی تنخواہ والدین کو دینے کے بعد صاحب نصاب ہونے کا حکم(4397-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں ستمبر انیس سو باسٹھ میں اندازاً بیس ربیع الاول کو مبلغ تین سو روپے تنخواہ ملنے پر صاحب نصاب ہوا، اس وقت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تقریباً ایک سو دس روپے تھی، عمومی طور پر تھوڑا بہت خرچہ کے علاوہ تمام پیسے گھر میں دے دیا کرتا تھا، یہ سلسلہ انیس سو پچھتر تک یعنی میری شادی تک چلتا رہا، جب مجھے خاندانی زیورات ملے اور پھر میں نے زکوۃ ادا کرنی شروع کی، انیس سو باسٹھ سے لے کر انیس سو پچھتر تک کی مدت کا ہر سال صاحب نصاب ہونے یا نہ ہونے کا مجھے کوئی یقینی حساب یاد نہیں ہے، ازراہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ انیس سو باسٹھ سے لے کر انیس سو پچھتر تک کی مدت میں جہاں عمومی طور پر گھر میں اکثر پیسے دینے کی وجہ سے ہر سال صاحب نصاب ہونے یا نہ ہونے کا مجھے کوئی یقینی حساب یاد نہیں ہے، زکوۃ کی ادائیگی یا کمی کیسے پوری کی جائے؟

جواب: جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتیں سمجھنا ضروری ہے
1- گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک سال کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جائے، پھر پہلی زکوۃ کی ادائیگی کے بعد، جو رقم بچے اور وہ نصاب تک پہنچتی ہو، تو دوسرے سال اس مال کی زکوٰۃ نکالی جائے، اسی طرح دوسرے سال کی زکوة منہا کرنے کے بعد، اگر بقایا رقم نصاب تک پہنچتی ہو، تو تیسرے سال اس مال کی زکوة اداکی جائے، اسی طرح جتنے سالوں کی زکوة ادا نہیں کی، ان کا حساب اس طریقہ پر کیا جائے۔
2- زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس تاریخ کو کوئی شخص نصاب کا مالک بنا ہے، ایک سال گزرنے کے بعد اسی تاریخ میں وہ شخص اتنے نصاب یا اس سے زائد مالیت کا مالک ہو، تو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
3- اولاد اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ خرچ کر کے بقیہ رقم اپنے والدین کو دیدے، تو اگر والدین کو بطور ہبہ (گفٹ) ان کو مالک بنا کر دیا گیا ہے، تو وہ رقم اولاد کی ملکیت سے نکل جاتی ہے اور والدین اس رقم کے شرعی مالک ہو جاتے ہیں۔
لیکن اگر اولاد اپنی تنخواہ کی بقیہ رقم والدین کو اباحۃً دے (مالک بنا کر نہ دے)، تو وہ تنخواہ اولاد کی ملکیت شمار ہوتی ہے، والدین اس کے محافظ ہوتے ہیں، نہ کہ مالک۔
مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ 1962 میں صرف تنخواہ کی بقیہ رقم کی بنا پر (نہ کہ سونا، چاندی اور مال تجارت کی بنا پر) اس زمانے کے حساب سے صاحب نصاب بن گئے تھے، تو اگلے سال اگر آپ کو اسی تاریخ کو تنخواہ ملی، تو اس سال کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم ہو گی۔
لیکن اگر آپ کو تنخواہ زکوٰۃ کی تاریخ سے پہلے ملی تھی، اور آپ نے اپنے ضروری اخراجات کے بعد بقیہ رقم والدین کو مالک بنا کر دیدی تھی اور زکوٰۃ کی تاریخ میں آپ کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مالیت نہیں تھی، یا تنخواہ زکوٰۃ کی تاریخ کے بعد ملی تھی اور آپ نے سابقہ تنخواہ حسب روایت والدین کو دیدی تھی، تو ایسی صورت میں آپ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوئی تھی، لہذا اس کا ادا کرنا آپ کے ذمے لازم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبی داود: (باب في الرجل یأکل من مال ولدہ، رقم الحدیث: 3530، 498/2، ط: دار الفکر)
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رجلاً أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ! إن لي مالاً وولدًا، وإن والدي یحتاج مالي۔ قال: ’’أنت ومالک لوالدک، إن أولادکم من أطیب کسبکم فکلوا من کسب أولادکم‘‘۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 1398، 741/2)
"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".

بدائع الصنائع: (کتاب الزکوٰۃ، 7/2، ط: سعید)
"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرون مثقال ذهب فلم يؤد زكوته سنتين يزكي السنة الأولى و كذا هكذا في مال التجارة و كذا في السوائم".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

guzishta saaloo / saloo ki zakaat / zakat ka hokom / hukum / hukom / hokum or bete / son ka apni tankhwah / sallary waldain / parents ko dene / deney ke / kay bad sahib e nisaab hone honay ka hokom / hukum / hukom / hokum, Ruling on Zakat of previous years and ruling on the son to who has become the obliged of zakaat after paying his salary to the parents

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat