عنوان: زکوة کا مستحق کون؟ (4412-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک ایسا شخص جس نے باقاعدگی سے اپنا کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی کمائی نہیں ہے، اس کی بیوی بھی نہیں کماتی ہے، ہاں اس کے پاس کچھ سونا اور بچت ہے جو اس کی ذاتی ملکیت ہے، گھریلو اخراجات مثلاً: کرایہ، گروسری، کپڑے وغیرہ لڑکی کے والد یعنی اس شخص کے سسر پورا کرتے ہیں، اس شخص کا اپنے مرحوم والد کی جائیداد میں حصہ ہے، لیکن اس کو تقسیم نہیں کیا گیا ہے، چنانچہ اس کے پاس کوئی غیر منقولہ جائیداد نہیں ہے، اس کے پاس مہنگی چیز کی شکل میں صرف ایک کار ہے، لیکن وہ راحت کا سبب بننے کے بجائے ایک طرح کی ذمہ داری ہی ہے، کیونکہ اس کی حالت انتہائی خستہ ہے، تو کیا ایسے آدمی کو زکوٰة دی جا سکتی ہے؟

جواب: جس غیر سید مسلمان کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی یا ضروریات اصلیہ (روزمرہ استعمال کی اشیاء) سے زائد سامان ہو، ان پانچوں میں سے بعض یا کل کا مجموعہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت اگر چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہیں پہنچتی ہے یا نصاب کو تو پہنچتی ہے، لیکن وہ قرض دار ہے، اور قرض منہا کرنے کے بعد وہ بقدر نصاب مالیت کا مالک نہیں رہتا، تو ایسا شخص زکوة کا مستحق ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo

تفسیر القرطبي: (171/8، ط: دار الکتب المصریة)
الخامسة- وقد اختلف العلماء في حد الفقر الذي يجوز معه الأخذ- بعد إجماع أكثر من يحفظ عنه من أهل العلم- أن من له دارا وخادما لا يستغني عنهما أن له أن يأخذ من الزكاة، وللمعطي أن يعطيه....وقال أبو حنيفة: من معه عشرون دينارا أو مائتا درهم فلا يأخذ من الزكاة. فاعتبر النصاب لقوله عليه السلام: (أمرت أن آخذ الصدقة من أغنيائكم وارد ها في فقرائكم). وهذا واضح، ورواه المغيرة عن مالك.

الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان.
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 479 May 21, 2020
zakat ka mustahiq kon?, Who is entitled / deserved for / to Zakat?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.