سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا ہم بہت سارے لوگوں میں زکوة کی رقم تقسیم کرنے کے بجائے صرف ایک شخص کو پوری زکوة دے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ ایک ہی آدمی کو اس قدر زکوٰۃ دینا کہ وہ خود صاحب نصاب بن جائے، یہ فی نفسہ جائز تو ہے، لیکن مکروہ ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ اتنی زیادہ رقم ایک ہی شخص کو نہ دی جائے بلکہ مختلف مستحقین میں تقسیم کرنی چاہئے، البتہ اگر کوئی مستحق مقروض ہو، اسے قرض کے برابر یا اس سے بھی زائد رقم دے سکتے ہیں، اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، مگر یہ قرض سے زائد رقم ایک نصاب کے برابر نہ ہو، اسی طرح اگر کسی مستحق عیالدار کو زکوۃ دی جائے تو اسے اتنی رقم دینا کہ اگر اولاد پر تقسیم کی جائے تو ہر ایک بچہ صاحب نصاب نہ بن سکے، اتنی رقم دینا بلا کراہت درست ہے، نیز کسی مستحق شخص کو علاج معالجہ کیلئے کثیر رقم کی ضرورت ہو تو اسے بھی علاج کے بقدر یا اس سے زائد رقم بھی بلا کراہت دے سکتے ہیں، لیکن وہ زائد رقم نصاب کے برابر نہ ہو۔
واضح رہے کہ جب ایک بار نصاب کے برابر رقم دی گئی اور وہ صاحب نصاب بن گیا، تو چونکہ اب وہ مستحق زکوۃ نہیں رہا، اس لئے دوبارہ دوسری زکوۃ کی رقم اسے نہیں دی جاسکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (باب المصرف، 93/2)
(وکرہ اعطاء فقیر نصاباً)اوا کثر (الااذاکان) المدفوع الیہ (مدیوناً او)کان (صاحب عیال )بحیث(لو فرقہ۔ علیھم لا یخص کلا) او لا یفضل بعد دینہ (نصاب ) فلا یکرہ
الھندیۃ: (الباب السابع فی المصارف، 88/1، ط: زکریا)
ویکرہ أن یدفع إلی رجل مأتی درہم فصاعدًا وإن دفعہ جاز ہذا إذا لم یکن الفقیر مدیونًا فإن کان مدیونًا فدفع إلیہ مقدار ما لو قضی بہ دینہ لا یبقی لہ شئ أو یبقی دون المأتین لا بأس بہ، وکذا لو کان معیلا جاز أن یعطي لہ مقدار ما لو وزع عیالہ یصیب کل واحد منہم دون المأتین۔
فتاوی رحیمیه: (175/7، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی