سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں اپنی شادی کے وقت ساڑھے سات تولہ سونے کی مالک بن گئی تھی، چنانچہ میں زکوٰة دیتی رہی، پھر ہر گزرتے سال کے ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے میں کچھ سونا فروخت کرتی رہی، یہاں تک کہ دو ہزار تیرہ اور اس کے بعد سے میرے پاس کبھی بھی ساڑھے سات تولہ سونا نہیں رہا، لہذا میں نے ہمیشہ یہی سوچا کہ میرے ذمہ زکوة کی ادائیگی نہیں ہے، اس دوران میرے پاس سوائے اس کے کہ میں نے جو ماہانہ کمیٹیوں اور جی پی فنڈ میں حصہ لیا، کوئی بچت نہیں تھی، میرے شوہر زیادہ نہیں کماتے ہیں، تاہم وہ جائیداد کے مالک ہیں، عام طور پر میں ہر دوسرے مہینے کے آخر میں قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کرتی ہوں، اس سال مجھے پتا چلا کہ اگر سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہو، تو بھی اگر تمام بچت اور زیورات کی مشترکہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے تجاوز کر جائے، تو پھر شرعاً زکوٰة کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے، میرے پاس ارادةً کوئی بچت اکاؤنٹ نہیں، لیکن مجھے یقین نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ میرے پاس سالانہ کچھ اضافی رقم ہو۔ (خواہ پانچ سو روپے ہوں)
اب چونکہ ایک تولہ سونے کی قیمت بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے تجاوز کر جاتی ہے، لہذا میں اپنے گزشتہ برسوں کی زکوٰة کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہوں، براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں گزشتہ جن سالوں میں آپ کی مجموعی مالیت (سونا، چاندی، مال تجارت اور ضروت سے زائد رقم) قرض اور کمیٹی کے واجب الاداء اقساط کو منہا کرنے کے بعد اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رہی ہو، تو آپ پر ان گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (باب زکوٰۃ المال، 176/1)
ویضم الذھب الی الفضۃ للمجانسۃ من حیث الثمنیۃ ومن ھذا الوجہ صار سبباً ثم تضم بالقیمۃ عند ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ الخ
مراقی الفلاح: (کتاب الزکوٰۃ، ص: 416)
وتضم قیمۃ العروض الی الثمنین والذھب الی الفضۃ قیمۃ
الھندیۃ: (172/1، ط: دار الفکر)
(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله - تعالى - كدين الزكاة فإن كان زكاة سائمة يمنع وجوب الزكاة بلا خلاف بين أصحابنا - رحمهم الله تعالى -
الدر المختار: (263/2، ط: دار الفکر)
ومدیون للعبد بقدر دینه) فیزکي الزائد ان بلغ نصابا،
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی