سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی انتہائی بیمار بیوہ عورت کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو اور بیٹے نے ضد کر کے فوج کی ایسی نوکری اختیار کر لی ہو، جس میں اسے گھر سے کافی دور رہنا پڑتا ہے اور وہاں بیمار ماں کو ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا، تو کیا ان حالات میں شادی شدہ بیٹی کے ذمہ ماں کے کچھ فراٸض ہیں یا شادی کے بعد وہ بیٹی بیوہ ماں کے فراٸض سے فارغ ہو گئی؟
جواب: رشتہ داروں میں سب سے زیادہ حق والدین کا ہے،اسی لیے اللہ تعالی نےقرآن مجید میں کئی مقامات پر اپنے حق کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور اس حکم میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یعنی جس طرح مرد پر اس کے والدین کا حق ہے، بالکل اسی طرح عورت پر اس کے والدین کا حق ہے،لیکن عورت پر شادی کے بعد شوہر کا حق زیادہ ہے، اگر عورت کے لیے شادی کے بعد والدین اور شوہر دونوں کے حقوق کو پورا کرنا ممکن ہے تو بڑی سعادت ہے، لیکن اگر دونوں کے حقوق کو پورا کرنا ممکن نہ ہو یا دونوں کے حقوق میں تعارض پیدا ہوگیا تو ایسی صورت میں شوہر کا حق والدین کے حق پر مقدم ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بیٹی کے لیے اپنے شوہر کے حقوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ والدہ کا خیال رکھنا ممکن ہو اور شوہر کو اس پر اعتراض نہ ہو تو بیٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنی والدہ کا خیال رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند احمد: (341/31، ط: مؤسسة الرسالة)
عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «كَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟» قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: «فَانْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ»
أعلام الحديث شرح صحيح البخاري لأبی سليمان الخطابي: (968/2، ط: جامعة أم القری)
وقد روي ذلك عن ابن عباس، وإنما كانت تؤخره عائشة رضي الله عنها لاشتغالها بقضاء حقوق رسول الله صلى الله عليه وسلم، في العشرة والخدمة. عائشة رضي الله عنها لاشتغالها بقضاء حقوق رسول الله صلى الله عليه وسلم، في العشرة والخدمة.
وفيه دلالة على أن حق الزوج مقدم على سائر الحقوق، ما لم يكن فرضا محصورا بوقت.
مجموع الفتاوى لابن تيمية: (261/32، ط: مجمع ملک فہد)
الْمَرْأَةُ إذَا تَزَوَّجَتْ كَانَ زَوْجُهَا أَمْلَكَ بِهَا مِنْ أَبَوَيْهَا وَطَاعَةُ زَوْجِهَا عَلَيْهَا أَوْجَبُ
و فیه أيضا: (263/32، ط: مجمع ملک فہد)
وَفِي الْمُسْنَدِ وَسُنَنِ ابْنِ مَاجَه عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: {لَوْ أَمَرْت أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدِ لَأَمَرْت الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا أَمَرَ امْرَأَتَهُ أَنْ تَنْقُلَ مِنْ جَبَلٍ أَحْمَرَ إلَى جَبَلٍ أَسْوَدَ وَمِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إلَى جَبَلٍ أَحْمَرَ: لَكَانَ لَهَا أَنْ تَفْعَلَ} أَيْ لَكَانَ حَقُّهَا أَنْ تَفْعَلَ۔۔۔۔۔الْمَرْأَةُ عِنْدَ زَوْجِهَا تُشْبِهُ الرَّقِيقَ وَالْأَسِيرَ فَلَيْسَ لَهَا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِهِ إلَّا بِإِذْنِهِ سَوَاءٌ أَمَرَهَا أَبُوهَا أَوْ أُمُّهَا أَوْ غَيْرُ أَبَوَيْهَا بِاتِّفَاقِ الْأَئِمَّةِ۔
فتاوى الشبكة الإسلامية: (8121/2)
فإن الله تعالى أمر المرأة أن تبر أباها وتحسن إليه، وكذلك أمرها بطاعة زوجها، وهذه الحقوق ليست متعارضة ولا متضاربة، فيجب عليها أن تؤدي لكل ذي حق حقه، وإن حصل تعارض فإن حق الزوج مقدم، لقول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي أخرجه الترمذي وابن ماجه: لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی