سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !
سنا ہے کہ زکوۃ زیورات کی قیمت فروخت کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائیں کہ کیا ہر سال زیورات کو سنار کے پاس لے جا کر قیمت فروخت کا حساب لگوایا جائے گا یا اس کے لیے علیحدہ سے کوئی فارمولا ہے، جس کے تحت زیورات میں پتھر، بنوائی اور کھوٹ (waste) وغیرہ کی قیمت نکال کر قیمت فروخت نکالی جا سکے گی؟
جواب: واضح رہے کہ سونے اور چاندی کے زیورات کی زکوٰۃ میں جس دن زکوٰۃ ادا کرنا ہو، اس دن کی قیمت فروخت کا اعتبار ہوگا۔
لہذا اگر کوئی شخص قیمت لگا کر اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے، تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس طرح کا زیور سنار کے یہاں کتنے میں فروخت ہوتا ہے؟ پس اس زیور کی جو قیمت سنار مقرر کرے، اسی کا اعتبار ہوگا، کیونکہ سناروں کا عرف عام یہی ہے کہ جب ان کو زیور فروخت کرنے کے لیے جائیں، تو اس کی مالیت میں سے کھوٹ، موتی اور بنائی کی قیمت منہا کر کے قیمت لگاتے ہیں۔
لہذا زیورات کی جو قیمت سنار مقرر کریں گے، اسی کے مطابق زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
البتہ ہر سال سنار کے پاس سونا لے جا کر قیمت لگوانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک مرتبہ کسی معتبر سنار کے پاس لے جائیں، وہ اس میں موجود خالص سونا، کھوٹ، موتی اور بنائی وغیرہ، سب کا حساب لگا کر آپ کو لکھ کر دیدے گا، پھر ہر سال آپ زکوٰۃ واجب ہونے کے دن سونے کی قیمت معلوم کر لیں، اور اس کی ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کر دیں۔
نیز زیورات میں اگر کھوٹ اصل سونے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہو اور وہ وزن میں سونے کے وزن سے کم ہو، تو وہ بھی اصل سونے کے حکم میں ہوگا، لہذا زکوٰۃ نکالتے وقت کھوٹ اور اصل دونوں کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (227/3، ط: زکریا)
"والمعتبر وزنہما أداء ووجوباً
یعني یعتبر أن یکون المؤدي قدر الواجب وزنا عند الإمام والثاني".
البحر الرائق: (395/2، ط: زکریا)
تبیین الحقائق: (74/2، ط: زکریا)
الدر المختار مع رد المحتار: (276/2، ط: سعید)
"وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب، وقالا: یوم الأداء .… ویقوم في البلد الذي المال فیہ ولو في مفازۃ، ففي أقرب الأمصار إلیہ".
"إن المعتبر عندہ فیہا یوم الوجوب، وقیل یوم الأداء، وفي المحیط یوم الأداء بالإجماع وہو الأصح فہو تصحیح للقول الثاني الموافق لقولہما، وعلیہ فاعتبار یوم الأداء یکون متفقا علیہ عندہ وعندہما".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی