عنوان: مقروض کا نفلی صدقہ کرنے کا حکم (4447-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب !
میں اپنی آمدنی کا ایک فیصد ایک طالب علم کو دیتا تھا، ایک روز وہ مجھے میری مسجد میں مل گیا اور مجھ سے التجا کی تو میں نے یہ سوچ کر مدد کرنا شروع کردی کہ مجھے دینا تو ہے ہی، سو اسی کو دے دیتا ہوں، چھ یا سات مہینے دینے کے بعد اچانک دل میں بات آئی کہ پہلے اپنے علاقے کی مسجد کو دینا چاہیے، اور اپنی مسجد کو چھوڑ کر ایسے شخص کو دینا، جس کا مجھے علم نہیں کہ کون ہے اور کیسا ہے؟ ٹھیک نہیں ہے، لہذا میں نے ان سے معذرت کرلی اور اپنی مسجد میں تعاون کرنا شروع کردیا، ابھی رمضان میں وہ شخص دوبارہ میرے پاس آیا، میں نے اسے بہت سمجھایا کہ میں نے لوگوں سے ادھار لے رکھا ہے اور اس وجہ سے میں اپنی مسجد میں بھی دو مہینے سے تعاون نہیں کر پا رہا، پر وہ شخص پیچھے پڑ گیا اور کہا کہ کسی دکاندار سے ادھار لے کر دے دیں، اس کا یہ عمل مجھے انتہائی ناگوار گزرا، اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اپنے علاقے کی مسجد میں تعاون کرنا زیادہ افضل ہے یا پھر میں نے انکار کر کے غلط کیا؟
جناب ! میں ایک حساس طبیعت کا مالک ہوں، ان کو انکار کر کے دل میں وسوسے آنے لگے کہ اللّٰہ نے اپنے بندے کو بھیجا اور میں نے اسے نہیں دیا، کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اسے فون کر کے بلایا اور کسی سے کچھ رقم ادھار لے کر دے دی، لیکن اس نے مزید رقم کی فرمائش کر دی، جب کہ میں خود بھی بیس ہزار تنخواہ پر کام کرتا ہوں، میرے اتنے سمجھانے کے بعد بھی وہ نہ مانا اور مزید تعاون پر اصرار کرتا رہا، مجھے لگا کہ وہ شخص لالچی ہے اور شاید میری نرم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے، اب آپ رہنمائی فرمائیں کہ ایسے شخص کے ساتھ میں تعاون کروں یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ شریعت نے نفلی صدقہ کے لیے کسی مخصوص مقدار کو لازم قرار نہیں دیا ہے، لہذا حسبِ استطاعت اپنی خوشی سے بغیر قرض لیے، جتنا کوئی صدقہ دینا چاہے دے سکتا ہے، لیکن کسی کے بہت زیادہ اصرار کرنے پر شرما شرمی میں قرض لینا اور اپنے آپ کو مجبور کرنا درست نہیں ہے، ایسے لوگوں سے اچھے انداز میں معذرت کرلیں، تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
عن سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
(صحیح البخاری: ٧/ ٦٣ (٥٣٥٦) كتاب النفقات/ باب وجوب النفقة على الأهل والعيال)
ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہترین خیرات وہ ہے، جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں۔
نیز جو زیادہ مستحق ہو، یا جہاں خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت ہو، تو وہاں خرچ کرنا چاہیے، چاہے قریب کی مسجد ہو یا مدرسہ کے طلبہ ہوں۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1544 Jun 04, 2020
maqrooz ka nafli sadqa karne ka hukum, Ruling on giving supererogatory / nafil charity by the debtor

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.