سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ہمارے ایک دوست نے مدرسہ کیلیے ایک جگہ وقف کی، جس میں تقریبا کئی سال سے ایک وقت کی پڑھائی ہورہی ہے، اب ہماری مسجد کی دائیں جانب والی جگہ (جس کی وجہ سے مسجد کی ہوا رکی ہوئی ہے) فروخت ہو رہی ہے، مسجد کی انظامیہ چاہتی ہے کہ مدرسہ والی جگہ کو فروخت کر کے اس جگہ کو خرید لیا جائے اور ساتھ میں اس جگہ کو مدرسہ کے لیے بھی استعمال کریں، تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
نوٹ:
جس بندہ نے مدرسہ کے لیے زمین وقف کی ہے وہ زندہ ہے، اور اس طریقہ کار پر راضی بھی ہے۔
جواب: واضح رہے کہ جب کوئی زمین وغیرہ ایک دفعہ وقف ہوجائے تو وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اس کے بعد عام حالات میں (واقف کیلئے بھی) اس کی خرید وفروخت کرنا یا اسے کسی اور مقصد کیلئے استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا مذکورہ صورت میں مدرسہ کیلئے وقف کی گئی جگہ میں جب مدرسہ کا مفاد حاصل ہورہا ہے، تو محض سوال میں ذکر کردہ مقصد کی خاطر مدرسہ کی جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ خریدنا اور اسے مسجد اور مدرسہ دونوں کیلئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اس جگہ کو مدرسہ کیلئے ہی استعمال کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (283/4، ط: دار الفکر)
مطلب في استبدال الوقف وشروطه قوله ( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار…إلي قوله…لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی