سوال:
مفتی صاحب ! dropshipping کے طریقے سے کاروبار کرنا کیسا ہے؟
اس میں یہ ہوتا ہے کہ مثلاً زید کو کسی چیز کی ضرورت ہے، بکر زید سے چیز کی قیمت طے کر کے معاملہ کر لیتا ہے، حالانکہ بکر کے پاس وہ چیز نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ چیز عمر کے پاس ہوتی ہے، بکر عمر سے وہ چیز کم قیمت پر خریدتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ یہ چیز زید کے پتے پر ارسال کر دو، تو اس طرح کاروبار کرنا کیسا ہے؟
جواب: سوال میں ڈراپ شپنگ( drop shipping) کے کاروبار کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، یہ بیع قبل القبض (قبضے سے پہلے فروخت کرنا) کی صورت ہے، جو کہ شرعا جائز نہیں، احادیث مبارکہ میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے، البتہ درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرلی جائے، تو یہ کاروبار جائز ہوسکتا ہے:
1) گاہک کو مطلوبہ چیز (Product) فروخت کرنے سے پہلے بکر، فروخت کنندہ (Seller) سے وہ چیز خرید لے، خریدنے کے بعد اگر بکر کیلئے خود اس پر قبضہ کرنا مشکل ہو، تو عمرو (Seller) کے علاوہ کسی اور کو اپنا وکیل اور نمائندہ بنائے، جو اس کی طرف سے اس چیز پر قبضہ کرلے، اس کے بعد بکر اپنے گاہک (زید) کو وہ چیز فروخت کردے، تو اس طریقہ سے خرید وفروخت کا معاملہ درست ہوجائے گا۔
2) دوسری صورت یہ ہے کہ بکر فروخت کنندہ (Seller) /عمر کا ایجنٹ بن کر اس کی چیز فروخت کردے، اور فروخت کنندہ سے اس طرح اجرت طے کرے کہ فی آئٹم بیچنے پر مثلا سو روپے متعین اجرت ہوگی، تو اس طریقہ سے بھی خرید و فروخت کا معاملہ درست ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (کراہیۃ بیع ما لیس عندک، رقم الحدیث: 1232)
عن حکیم بن حزام قال : أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت : یأتیني الرجل یسألني من البیع ما لیس عندي أبتاع لہ من السوق ثم أبیعہ ؟ قال : ’’ لا تبع ما لیس عندک ‘‘
الھندیۃ: (الفصل الثالث فی معرفۃ المبیع والثمن والتصرف، 13/3، ط: دار الفکر)
فنقول من حکم المبیع اذا کان منقولا ان لایجوز بیعہ قبل القبض....واما اذا تصرف فیہ مع بائعہ فان باعہ منہ لم یجز بیعہ اصلا قبل القبض۔
الدر المختار: (کتاب الإجارۃ، 5/6، ط: دار الفکر)
وشرطہا : کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 73/3058
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی