resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: جمعہ کی دوسری اذان کہاں دی جائے؟ (4527-No)

سوال: مفتی صاحب ! ہمارے محلہ کی مسجد چند سال قبل ہی جامع مسجد ہوئی ہے، اس وقت جو ہمارے خطیب تھے, انھوں نے کہا کہ جمعہ کی دوسری اذان (جو خطبہ سے پہلے ہوتی ہے) کا مسجد کے باہر دینا مسنون ہے، تب سے آج تک خطبہ سے پہلے والی اذان وضو خانے میں کھڑے ہو کر دی جاتی ہے، بعض اوقات بغیر لاؤڈ سپیکر کے پڑھی جاتی ہے اور بعض اوقات وہاں تک مائک پہنچایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عجیب بد نظمی کی صورت حال بن جاتی ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جمعہ کی دوسری اذان خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع کی گئی، چونکہ مدینہ منورہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تھی اور دور تک پہلی اذان کی آواز نہ پہنچ پاتی تھی، جس کی وجہ سے کئی لوگوں نے اس کی شکایت کی، تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے باہر بازار میں دوسری خطبہ کے لیے اذان دینے کا حکم صادر فرمایا، بعض دوستوں کا خیال ہے کہ یہ خالص انتظامی معاملہ ہے اور اذان کی روح ہی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آواز پہنچے اور لاؤڈ سپیکر کے دور میں اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اذان مسجد کے اندر کھڑے ہو کر دی جائے یا باہر، جب کہ کچھ دوست اس بات پر بضد ہیں کہ چونکہ خطیب صاحب نے کہہ دیا تھا اور چونکہ انہوں نے اس حوالے سے کسی فتوے کا بھی ذکر کیا تھا، تو جمعہ کی دوسری اذان وضو خانے میں ہی دی جائے گی، برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ بہتر صورت کیا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ جو اذان جمعہ کے خطبے سے پہلے منبر کے سامنے کھڑے ہو کر دی جاتی ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہما کے زمانے تک جمعہ کی یہی ایک اذان ہوتی تھی، پھر خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے، ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، یہ وہ اذان ہے، جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے، اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی نکیر نہیں فرمائی، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔
نیز واضح رہے کہ اذان کا بنیادی مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ آواز پہنچانا کہ جماعت قائم ہونے والی ہے، قدیم زمانے میں اس مقصد کے لیے مسجد کے باہر اونچی جگہ مینارہ وغیرہ پر اذان دی جاتی تھی، جبکہ آج کل عام طور پر لاوڈ اسپیکر میں اذان دی جاتی ہے، چنانچہ مسجد میں اذان دی جائے یا مسجد سے باہر، بہر صورت آواز دور تک پہنچ جاتی ہے، نیز جمعہ کی دوسری اذان اقامت کی طرح ہے، گویا حاضرینِ مسجد کو اطلاع دی جارہی ہے، کہ اب خطبہ جمعہ کے لیے تیار ہو جائیں، نفل، تسبیح، تلاوت وغیرہ موقوف کر دیں، لہذا یہ اذان خطیب کے سامنے پہلی صف میں یا نمازیوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے، کہ سب تک آواز پہنچ جائے، مسجد میں دینا مسنون ہے، فقہاء کی تصریحات یہی ہیں کہ امام اور منبر کے سامنے اذان ثانی دی جائے، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے زمانے سے لیکر، اب تک تواتر و توارث کے ساتھ علماء امت کا اسی پر عمل چلا آرہا ہے، لہذا اس کو وجہ نزاع بنانا ناپسندیدہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (8/2، ط: دار طوق النجاة)
"عن السائب بن يزيد قال: كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما كان عثمان رضي الله عنه وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء".

سنن الترمذي: (392/2)
"عن السائب بن يزيد قال : كان الأذان على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم و أبي بكر وعمر إذا خرج الإمام و [ إذا ] أقيمت الصلاة، فلما كان عثمان [ رضي الله عنه ] زاد النداء الثالث على الزوراء". قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح".

العرف الشذی: (69/2)
"وأيضاً في الحديث : "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ..." إلخ وفي شرح هذا الحديث قولان ، قيل : إن سنة الخلفاء والطريقة المسلوكة عنهم أيضاً سنة وليس ببدعة وقيل: إن سنة الخلفاء في الواقع سنة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وإنما ظهرت على أيديهم ، ويمكن لنا أن نقول : إن الخلفاء الراشدين مجازون في إجراء المصالح المرسلة وهذه المرتبة فوق مرتبة الاجتهاد ، وتحت مرتبة التشريع ، والمصالح المرسلة : الحكم على اعتبار علة لم يثبت اعتبارها من الشارع ، وهذا جائز للخلفاء الراشدين لا للمجتهدين".

و فیہ ایضاً: (294/2)
"أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة؛ لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين".

الدر المختار مع رد المحتار: (161/2)
"قال في شرح المنية: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقيل: الأول باعتبار المشروعية، وهو الذي بين يدي المنبر؛ لأنه الذي كان أولاً في زمنه عليه الصلاة والسلام، وزمن أبي بكر وعمر، حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح: أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اه. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة".

السعایۃ بحوالہ لامع الدراري: (21/2)
"أذان لا یستحب رفع الصوت فیہ بل ہو الأذان الثاني بین یدی الخطیب؛ لأنہ کالإقامۃ لا علام الحاضرین صرح بہ جماعۃ من الفقہاء".

نفع المفتی و السائل: (ص: 42)

الھدایۃ: (151/1)
"وإذا صعد الإمام المنبر جلس و أذن المؤذن بین یدی المنبر بذلک جری التوارث".

مجمع الانھر: (171/1)

الدر المختار مع رد المحتار: (باب الجمعة: 161/2، ط: سعید)
"ویؤذن ثانیا بین یدیہ أي الخطیب
أي علی سبیل السنیۃ کما یظہر من کلامہم".

فتح الباری: (باب الأذان یوم الجمعۃ، رقم الحدیث: 912)
"الحکمۃ في الأذان في ہذا المحل لیعرف الناس بجلوس الإمام علی المنبر، فینصتون لہ إذا خطب".

حاشیۃ آثار السنن: (95/2)
"إن التأذین عند الخطبۃ محلہ عند الإمام وبذلک جری التوارث علی ماقال صاحب الہدایۃ قلت فبطل بذلک قول من زعم أن التأذین عند الخطبۃ في المسجد بدعۃ".

العرف الشذی: (116/1)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

jummay ki doosri azaan kaha di jaye?, Where should the second adhan / azan / azaan of Friday be given?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Eidain Prayers