سوال:
مفتی صاحب ! اگر کرایہ دار کا تعلق میڈیا سے ہو یا وہ سودی بینک میں ملازم ہو، تو ملنے والا کرایہ حلال ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اجرت کے معاملے میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر ملازم کی کمائی کا اکثر حصہ سود اور ناجائز کاموں سے حاصل شدہ مال پر مشتمل ہو تو ایسے شخص سے اجرت لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کمائی کا اکثر حصہ جائز کاموں سے حاصل شدہ مال پر مشتمل ہو، تو ایسے شخص سے اجرت لینے کی گنجائش ہے۔
مثال کے طور پر جو شخص سودی بینک میں براہ راست سودی لین دین کے معاملات کے شعبے میں کام کرتا ہو یا میڈیا میں براہ راست ناجائز کاموں میں معاونت کرتا ہو، تو اس کی کمائی حرام ہے، ایسے حرام آمدنی والے سے بطور اجرت کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر سودی بینک کا ملازم براہ راست سودی شعبے میں کام نہ کرتا ہو، ( مثلاً: بینک میں چوکیدار ہو، ڈرائیور ہو، یا چائے وغیرہ بنانے کا کام کرتا ہو )، یا میڈیا کا ملازم براہ راست ناجائز کاموں میں معاون نہ ہو، تو ایسی آمدنی والے سے بطور اجرت کرایہ لینے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (247/1، ط: دار الفکر)
الحرمة تتعدی فی الأموال مع العلم بھا، الا فی حق الوارث فإن مال مورثه حلال له وإن علم نحرمته منه، من الخانیة.
و فیھا ایضاً: (342/5، ط: دار الفکر)
ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار.
فقہ البیوع: (1021/1)
وان علم الآخذ ان الحلال والحرام متمیزان عندہ، لکن لم یعلم ان ما یاخذہ من الحلال او من الحرام، فالعبرة عند الحنفیة للغلبة، فان کان الغلبة فی مال المعطی الحرام لم یجز لہ وان کان الغالب فی مالہ الحلال، وسع لہ ذلک۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی