resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: 1) شوہر، دو بیٹوں، ایک بیٹی اور ایک بھائی کے درمیان میراث کی تقسیم 2) ترکے کا مکان تقسیم کئے بغیر ورثاء کا اس میں اکھٹے رہنا 3) اپنی رضامندی سے بہن کو کچھ زیادہ حصہ دینے کا حکم(4533-No)

سوال: مفتی صاحب ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ورثاء میں شوہر، دو بیٹے، ایک بیٹی اور ایک بھائی ہے، والدہ کے والدین کا ان کی وفات سے پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے، مرحومہ نے ترکہ میں ایک لاکھ (100000)کی رقم چھوڑی ہے، رہنمائی فرمائیں کہ ورثاء کے درمیان ترکہ کس تناسب سے تقسیم ہو گا؟
نیز جس گھر میں میرے والد کی رہائش ہے، وہ والدہ کے نام تھا، تو کیا اس کو بھی فروخت کرنا ضروری ہے، جب کہ تمام ورثاء اس بات پر متفق ہیں کہ والد صاحب کی زندگی میں اس کو نہ فروخت کیا جائے؟
مزید یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ اگر ہم تمام ورثاء کی مرضی سے اپنی بہن کو کچھ زیادہ حصہ دینا چاہیں، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: (1) مذکورہ صورت میں مرحومہ نے اپنے انتقال کے وقت مذکورہ مکان سمیت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد رقم ،سونا چاندی ،مال تجارت اور ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو ساز و سامان چھوڑا تھا، وہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے، اس میں سے مرحومہ کے کفن ودفن کے متوسط اخراجات کی ادائیگی، اور اس کے بعد مرحومہ کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومہ نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (1/3) مال کی حد تک اس پرعمل کیا جائے گا۔
اس کے بعد جو مال بچے اس کے کل بیس (20) برابر حصے کرکے، ان میں سے مرحومہ کے شوہر کو پانچ (5) حصے، ہر ایک بیٹے کو چھ (6)حصے، اور بیٹی کو تین حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو کل ترکہ کے سو فیصد (%100) میں سے شوہر کو پچیس فیصد (%25)،
ہر ایک بیٹے کو تیس فیصد (%30)،
اور بیٹی کو پندرہ فیصد (%15) ملے گا۔
مذکورہ صورت میں مرحومہ کے بھائی کا میراث میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہے۔
2) میراث کی تقسیم میں بلاعذر تاخیر کرنا درست نہیں ہے، اور تمام ورثاء پر لازم ہے کہ وہ ترکہ کو شرعی طریقہ کار کے مطابق جلد از جلد تقسیم کریں، تاکہ ہر صاحب حق کو اپنا حق مل جائے، تاہم مذکورہ صورت میں اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے ترکہ کے اس مکان کی تقسیم کو موخر کرکے مشترکہ طور پر اس میں رہنا چاہیں، تو اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس میں کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
3) اگر تمام ورثاء عاقل و بالغ ہوں، اور وہ اپنی دلی رضا و خوشی سے بہن کو اس کے شرعی حصے سے کچھ زیادہ دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن....الخ

السنن الکبری للبیہقی: (باب میراث إلاخوۃ و الأخوات لأب و أم أولأب، رقم الحدیث: 12581، 288/9، ط: دار الفکر)
عن زیدبن ثابت فإن کان معہن أخ ذکر فإنہ لافریضۃ لأحد من الأخوات، ویبدأ بمن شرکہم من أہل الفرائض فیعطون فرائضہم فما فضل بعد ذلک کان بین الإخوۃ والأخوات للأب والأم  للذکر مثل حظ الأنثیین

تبيين الحقائق: (233/6، ط: المطبعہ الکبري)
(أحوال الزوج في الميراث)
قال - رحمه الله - (وللزوج النصف ومع الولد أو ولد الابن وإن سفل الربع) لقوله تعالى {ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن} [النساء: 12]

البناية شرح الهداية: (373/7، ط: دار الکتب العلمیة)
الشركة ضربان: شركة أملاك، وشركة عقود، فشركة الأملاك العين يرثها الرجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

shouhar do beeton aik beeti or aik bhai kay darmiyaan meeraas ki taqseem, tarkay ka makaan taqseem kiye baghair wurasaa ka us mai ikhatta rehna , apni razaa mandi say behen ko kuch ziada hissa denay ka hukum, 1) Inheritance between husband, two sons, one daughter and one brother 2) The heirs stay / live together in the house without dividing the inheritance 3) Ruling on giving a little more to sister with own consent

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster