سوال:
مفتی صاحب ! میرا ایک دوست جو اسپین میں رہتا ہے، وہاں کے باشندے کو ریسٹورنٹ کرائے پر دینا چاہتا ہے، جو اس میں شراب بھی بیچے گا، سوال یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ اگلا شخص شراب بیچے گا، کیا میرے دوست کا اس ریسٹورنٹ کو کرائے پر دینا جائز ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ اس سے ملنے والا کرایہ حلال ہو گا یا نہیں؟
جواب: صورت مسؤلہ میں اگر ریسٹورنٹ کی جگہ کرایہ پر لینے والے کا مقصد اس جگہ پر صرف ناجائز اور حرام اشیاء کا کاروبار کرنے کا ہو، اور ریسٹورنٹ کے مالک کو پہلے سے اس بات کا علم بھی ہو، تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس شخص کو جگہ کرایہ پر دے، اس لئے کہ یہ گناہ پر تعاون کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اگر کرایہ دار نے عام کاروبار کرنے کے لئے جگہ کرایہ پر لی، پھر بعدازاں اس میں بعض ناجائز اور حرام اشیاء کی خرید وفروخت بھی شروع کردی، تو اس صورت میں پراپرٹی کا مالک گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ یہ عمل کرایہ دار کی طرف منسوب ہوگا، اور اس صورت میں پراپرٹی کے مالک کے لئے کرایہ وصول کرنا بھی جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 2)
ولاتعاونواعلی الإثم والعدوان....الخ
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 2518)
عن الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما قال: حفظت من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: دع ما یریبک إلی ما لا یریبک۔
المبسوط للسرخسی: (باب الإجارۃ الفاسدۃ، 309/16، ط: المکتبۃ الحبیبیۃ)
لابأس بان یواجر المسلم داراً من الذمی لیسکنھا فان شرب فیھا الخمر او عبد فیھا الصلیب او ادخل فیھا الخنازیر لم یلحق للمسلم اثم فی شئی من ذالک لانہ لم یوجر ھا لذلک والمعصیۃ فی فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا اثم علی رب الدار فی ذلک۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی