سوال:
مفتی صاحب ! کیا ایک مسجد میں دو بار جمعہ کی نماز ( اس طرح کے پہلی نماز سوا ایک بجے اور دوسری نماز ڈیڑھ بجے پڑھی جائے) ہو سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جب محلے کی مسجد (جہاں امام ومؤذن مقرر ہوں) میں باقاعدہ اذان واقامت کے ساتھ اہلِ محلہ جماعت کراچکے ہوں، تو عام حالات میں مسجد کی حدود کے اندر دوسری جماعت کرانا مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز ہے، لیکن جہاں سخت مجبوری ہو، جیسا کہ موجودہ حالات میں کرونا کی وجہ سے حکومت کی طرف سے نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کی پابندی کے پیشِ نظر مسجد بھر جاتی ہو، اور بہت سے لوگ جمعہ سے محروم ہوتے ہوں، تو درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ایک سے زائد باجماعت نماز پڑھی جاسکتی ہے:
1- پہلی جماعت میں حکومتی ہدایات (SOPs) کے مطابق مسجد اچھی طرح بھر جائے، اور وہاں مزید گنجائش نہ رہے۔
2- دونوں جماعتوں کا امام الگ ہو، اور بہتر ہے کہ خطبہ دینے والا بھی الگ ہو، اصل یہ ہے کہ جو امام ہو، وہی خطبہ دے، تاکہ خلاف اولی لازم نہ آئے، اور مقتدی بھی الگ ہوں، یعنی پہلی جماعت کے لوگ نہ ہوں۔
3- دوسری جماعت ہیئت اُولیٰ پر نہ کی جائے، یعنی دوسری نماز میں امام صاحب پہلی جماعت والی جگہ سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہوں۔
نیز دوسری جماعت میں خطبہ کی اذان، خطبہ اور اقامت بھی کہی جائے گی۔ (پہلی اذان جب ایک دفعہ ہوگئی، تو اسے دھرانے کی ضرورت نہیں ہے)
ایسے موقع پر دوسری جماعت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جہاں یہ مسئلہ پیش آسکتا ہو، وہاں پہلے سے باقاعدہ نمازیوں کا اندازہ لگا کر دوسری جماعت کے اوقات کا اعلان کیا جائے کہ مثلاً: پہلی جماعت ایک بجے ہورہی ہو، تو دوسری جماعت کا اعلان ڈیڑھ بجے یا دو بجے کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مجمع الزوائد: (54/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن أبي بکرۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلوٰۃ، فوجد الناس قد صلوا فمال إلی منزلہ، فجمع أھلہ فصلٰی بھم۔
مصنف ابن أبي شیبہ: (293/4، ط: مؤسسة علوم القرآن)
قلت: ولو لم یکرہ لما ترک المسجد، وعن إبراھیم النخعي قال: قال عمرؓ: لا یصلی بعد صلوٰۃ مثلھا۔
مصنف عبد الرزاق: (291/2)
عبدالرزاق عن معمر عن أبي عثمان" قال : مر بنا أنس بن مالك ومعه أصحاب له فقال : أصليتم ؟ قلنا : نعم ، قال : فنزل فأم أصحابه، فتقدَّم فَصَلى بهم،
رد المحتار: (553/1، ط: دار الفکر)
ولنا انہ علیه الصلوۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد الی المسجد وقد صلی اہل المسجد فرجع الی منزلہ فجمع اہلہ وصلی ولوجاز ذلک لما اختار الصلوۃ فی بیتہ علی الجماعۃ فی المسجد ولان فی الاطلاق ہذا تقلیل الجماعۃ معنی فانہم لا یجتمعون اذا علموا انہم لا تفوتہم ....ومقتضی ہذا الاستدلال کراہۃ التکرار فی مسجد المحلۃ ولوبدون اذان ویؤیدہ مافی الظہیرۃ لو دخل جماعۃ المسجد بعد ماصلی فیہ اھل یصلون وحدانا
المبسوط للسرخسی: (391/1، ط: دار الکتب العلمیة)
انا أمرنا بتکثیر الجماعۃ وفي تکرار الجماعۃ في مسجد واحد تقلیلہا لأن الناس إذا عرفوا أنہم تفوتہم الجماعۃ یعجلون للحضور فتکثر الجماعۃ ، وإذا علموا أنہ لا تفوتہم یؤخرون فیؤدی إلی تقلیل الجماعۃ -إلی- فکل من حضر یصلی فیہ ، فإعادۃ الجماعۃ فیہ مرۃ بعد مرۃٍ لا تؤدی إلی تقلیل الجماعات
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی