سوال:
مفتی صاحب ! بہنوں کے بار بار مطالبہ کے باوجود بھی بھائی ان کو ان کا حصہ دینے پر تیار نہ ہوں اور معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے بہنیں قانونی کاروائی بھی نہ کر سکتی ہوں تو ایسے بھائیوں کے بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ (مذکر) اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا خود تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔
بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔
ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔
الله تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرما دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا۔
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(النساء، الایۃ13)
ترجمہ: (میراث کے احکام ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں) یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے۔
وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ(النساء، الایۃ14)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا، جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔
اب جس مسلمان کے دل میں الله تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا، وہ تو ہرگز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔
باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی وہ لوگ ہیں، جو ماں یا بہن کے حقِ میراث میں غبن کر کے حرام کا ارتکاب کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 13)
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُo
ترجمہ:
(میراث کے احکام ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں) یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے۔
و قوله تعالی: (النساء، الایة: 14)
وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌo
ترجمہ:
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا، جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔
مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».
و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، الفصل الثالث، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی