سوال:
مفتی صاحب ! کسی کے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں اور وہ پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں، نیز ان کی والدہ بھی حیات ہیں، ساری بہنیں شادی شدہ ہیں، دو بھائی بالکل علیحدہ رہتے ہیں اور تین بھائی ایک ساتھ گھر میں رہتے ہیں اور ان تینوں کی آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) بہنیں یہ چاہتی ہیں کہ یہ جگہ بیچ دیں اور ہمیں ہمارا حصہ دے دیں، جب کہ بھائی اور والدہ جگہ بیچنا نہیں چاہتی ہیں، تو کیا اس مطالبہ پر بہنیں حق پر ہیں؟
(2) ان تین بھائیوں میں سے ایک بھائی یہ جگہ لینا چاہتا ہے، لیکن وہ دو بھائی دینے کے لیے راضی نہیں ہیں اور بہنیں بھی چاہ رہی ہیں کہ ہم یہ جگہ باہر کسی اور کو بیچیں اور جو بھائی جگہ خریدنا چاہتا ہے، اس بھائی کو نہ ملے، کیونکہ ان بہنوں کی اس بھائی کے ساتھ نہیں بنتی، تو شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
(3) جو بھائی جگہ لینا چاہتا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اس جگہ میں اگر ایک فٹ کی بھی جگہ میرے حصے میں آتی ہو، تو چونکہ یہ میرے باپ کی کمائی ہے، لہذا میں اسے نہیں بیچوں گا، آپ لوگ مجھے میری ایک فٹ کی جگہ بتا دو اور باقی جگہ آپ سب مل کر بیچ دو، رہنمائی فرمائیں کہ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب: 1۔ واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ (مذکر) اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا خود تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔
بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔
2۔ جب کسی مکان یا جائیداد کی ملکیت میں کئی آدمی شریک ہوں، خواہ وہ مکان ان سب شرکاء کو وراثت میں ملا ہو یا ان سب نے مشترک طور پر اسے خریدا ہو، اس صورت میں سب شرکاء کا اس جائیداد میں برابر کا حصہ ہوتا ہے، لہذا اگر اس مکان یا جائیداد کو فروخت کیا جائے اور اتنی قیمت کا شریک خریدنا چاہے، جتنی قیمت کا کوئی اور خرید رہا ہے تو دوسروں کی بنسبت شریک کو خریدنے کا حق زیادہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 13)
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُo
مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».
و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، الفصل الثالث، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".
بدائع الصنائع: (4/5، ط: دار الکتب العلمیة)
(أما) الأول فسبب وجوب الشفعة أحد الأشياء الثلاثة الشركة في ملك المبيع، والخلطة وهي الشركة في حقوق الملك والجوار، وإن شئت قلت أحد الشيئين الشركة والجوار، ثم الشركة نوعان شركة في ملك المبيع وشركة في حقوقه كالشرب والطريق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی