سوال:
میرے ہاتھ میں ایلفی لگ گئی تھی، لیکن اندازہ نہیں ہوا، دو دن گزرنے کے بعد ناخن میں وہ ایلفی نمایاں ہوئی تو اسے صاف کر لیا، اب اس صورت میں دو دن کی پڑھی گئی نمازوں اور غسل کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: اگر بدن میں کوئی ایسی چیز لگ جائے جو بدن تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ بنے تو اس کو وضو اور غسل سے پہلے دور کرنا ضروری ہے، لہذا اگر جسم کے کسی حصے پر ایلفی(Elfy) لگ جائے تو اصل حکم اس کو چھڑانے کا ہے، لیکن اگر پوری کوشش کے باوجود مکمل طور پر نہ چھوٹے اور زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال اترنے یا زخم ہونے کا اندیشہ ہو تو جس قدر ہٹ جائے کافی ہے اور حرج کی وجہ سے اسی حالت میں وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔
تاہم مذکورہ صورت میں ناخن اور ہاتھ پر جو ایلفی لگی رہ گئی تھی٬ اگر بھول کر یا کسی وجہ سے اسے اتارنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تھی تو ایسی صورت میں ایلفی لگنے کے بعد کیا گیا وضو اور غسل کافی نہیں ہوگا، ایسے وضو اور غسل سے جو نمازیں پڑھی گئی ہیں، انہیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشیة الطحطاوی علی مراقي الفلاح: (ص: 62)
"شرط صحته أي الوضوء زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع شحم"
حاشیة االطحطاوی علی الدر المختار: (88/1)
"(قولہ ولوجرمہ) الحناء لکن لابد ان یصل الماء تحتہ واما اذا لم یصل لاتصح الطھارۃ و لذا قال فی البحر ولو الزقت المرأ ۃ راسھا بالطیب بحیث لایصل الماء الی اصول الشعر وجب علیھا ازالتہ…(قولہ بخلاف نحوعجین) من خبز ممضوغ ودرن یابس فی الأنف وجلد سمک کما فی البحر(قولہ ولا یمنع ماعلی ظفر صباغ) للضرورۃ قال فی المضمرات وعلیہ الفتویٰ والقول الثانی انہ یمنع وبہ صدر فی البحر والظاھر ان ھذا الخلاف یجری فی الحناء"
البحر الرائق: (14/1)
"ولو لصق بأصل ظفْره طينٌ يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز"
الهندیة: (4/1، ط: دار الفکر)
"وفی الجامع الصغیر: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي یبقی في أظفاره الدرن، أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأة التي صبغت إصبعها بالحناء أو الصرام أو الصباغ قال: کل ذلک سواء یجزیهم وضوء هم إذ لایستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوی علی الجواز"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی