سوال:
آج صبح باجماعت فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میری پینٹ پر پرندے کی نجاست لگی ہوئی تھی لہذا غالباََ ناپاکی کی وجہ سے میری نماز ادا نہیں ہوئی، براہ مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ مرغی، بطخ، اور مرغابی کے سوا تمام حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے، جیسے: کبوتر، چڑیا وغیرہ، جبکہ مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ نجس (نجاست غلیظہ) ہے۔
نجاست غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر ایک درہم (یا ہتھیلی کے گہراؤ)کی مقدار یا اس سے کم پھیلاؤ میں کپڑے یا بدن کے کسی عضو پر لگ جائے تو نماز ہو جائے گی لیکن گنجائش ہونے کے باوجود نہ دھونا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اس سے زائد مقدار میں نجاست لگنے کی صورت میں بغیر دھوئے نماز ادا نہیں ہوگی۔
تمام حرام پرندوں کی بیٹ نجاست خفیفہ ہے۔
نجاست خفیفہ کا حکم یہ ہے کہ اگر نجاست خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے تو کپڑے یا جسم کے جس حصہ میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو تو معاف ہے، البتہ جان بوجھ کر اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اگر چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ پر نجاست لگی ہو تو اس کا دھونا واجب ہے، دھوئے بغیر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (باب الانجاس، 231/1)
وعفاالشارع عن قدر درهم وإن کره تحریما فیجب… ونجاسة خفیفة … وعفی دون ربع جمیع بدن وثوب الخ۔
الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیۃ: (19/1)
(خرء) مایؤکل لحمہ من الطیور طاھر الامالہ رائحۃ کریھۃ کخرء الدجاج والبط والاوزفھو نجس نجاسۃ غلیظۃ۔
الھندیۃ: (46/1)
وبول مایوکل لحمہ والفرس وخرء طیر لایوکل مخفف…… وذرق مایوکل لحمہ من الطیر طاھر عندنا مثل الحمام والعصافیر...
الموسوعة الفقهية الكويتية: (211/21)
ذرق الطيور مما يؤكل لحمه كالحمام والعصافير، طاهر عند جمهور الفقهاء (الحنفية والمالكية وهو الظاهر عند الحنابلة) وذلك لعموم البلوى به بسبب امتلاء الطرق والخانات بها؛ولإجماع المسلمين على ترك الحمام في المساجد.وعلى ذلك فإن أصاب شيء منه بدن الإنسان أو ثوبه داخل الصلاة أو خارجها لا تفسد صلاته ولا ينجس ثوبه.
واستثنى الحنفية والمالكية من هذا الحكم خرء الدجاج والبط الأهلي؛ لأنهما يتغذيان بنجس فلا يخلو خرؤهما من النتن والفساد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی