سوال:
اگر کسی شخص نے عید کی نماز ادا ہونے سے پہلے جانور قربان کرلیا تو کیا اس کی قربانی درست ہوگی یا نہیں؟
جواب: شہر میں جہاں عید کی نماز ہوتی ہو، وہاں نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے، لیکن اگر پورے شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید کی نماز ہوگئی ہو تو اس کے بعد قربانی کرنا درست ہے، اگرچہ اس کے محلے کی مسجد میں عید کی نماز نہ ہوئی ہو، البتہ جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو، جیسے گاؤں، دیہات وغیرہ تو وہاں فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی قربانی کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (6/ 318، كتاب الأضحية, ط: دارالفکر)
"(وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).
(قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اه وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام".
مجمع الانھر: (کتاب الاضحیة، 169/4)
لایجوز لأہل المصر ان یذبحوا الاضحیۃ قبل أن یصلوا صلاۃ العید یوم الاضحی وذبح غیرہ والاصل فیہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام من ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاۃ تم نسکہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی