سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص ملازمت کے اوقات میں اپنا کام بخوبی پورا کرتا ہے، لیکن انہیں اوقات میں سے کچھ فارغ وقت میں اپنے کچھ ذاتی کام (مثلاً: موبائل استعمال کرنا یا کتاب پڑھنا وغیرہ) بھی کرتا ہے، جبکہ کمپنی کی طرف سے اس بارے میں کوئی اصول و ضوابط موجود نہیں، تو کیا فارغ وقت میں اس شخص کا ذاتی کام کرنا شرعاً درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کام کے اوقات میں فرض، واجب اور سنت مؤکدہ نماز کے علاوہ کوئی نیک کام مثلاً: قرآن مجید کی تلاوت، کتاب پڑھنے، ذکر و اذکار یا نفل نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، تاہم اگر مطلوبہ کام مکمل ہوچکا ہو، اور کام نہ ہونے کی وجہ سے وقت فارغ ہو، اور کمپنی کی طرف سے بھی ممانعت نہ ہو، تو مذکورہ اعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (70/6، ط: دار الفکر)
(قَوْلُهُ وَلَيْسَ لِلْخَاصِّ أَنْ يَعْمَلَ لِغَيْرِهِ) بَلْ وَلَا أَنْ يُصَلِّيَ النَّافِلَةَ. قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي فَتَاوَى الْفَضْلِيِّ وَإِذَا اسْتَأْجَرَ رَجُلًا يَوْمًا يَعْمَلُ كَذَا فَعَلَيْهِ أَنْ يَعْمَلَ ذَلِكَ الْعَمَلَ إلَى تَمَامِ الْمُدَّةِ وَلَا يَشْتَغِلَ بِشَيْءٍ آخَرَ سِوَى الْمَكْتُوبَةِ وَفِي فَتَاوَى سَمَرْقَنْدَ: وَقَدْ قَالَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا لَهُ أَنْ يُؤَدِّيَ السُّنَّةَ أَيْضًا. وَاتَّفَقُوا أَنَّهُ لَا يُؤَدِّي نَفْلًا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی