سوال:
مفتی صاحب ! ایک ان پڑھ، غیر شادی شدہ اور انتہائی غریب شخص (جس کے والدین وفات پا چکے ہیں اور جس کا کسی قسم کا کوئی کاروبار بھی نہیں ہے اور عید کے چوتھے دن سے تبلیغ میں سالانہ چلے میں جارہا ہے) کو اپنی مرحوم والدہ کی جائیداد میں سے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے ملے ہیں۔
اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا یہ شخص قربانی کرے گا؟
جواب: جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو، جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو ایسے مرد پر قربانی واجب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر یہ پیسے اس شخص کے پاس عید کے تیسرے دن کے غروب آفتاب تک موجود ہوں، تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره. وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية.... وفي «الأجناس» : وإن كان عنده حنطة قيمتها مائتا درهم يتجر بها، أو ملح قيمتها مائتا درهم، أو قصار عنده صابوت أو أشنان قيمتها مائتا درهم فعليه الأضحية.
الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)
(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی