عنوان: متروکہ رقم سے زکوۃ نکالنا اور 1950000 کی تقسیم(493-No)

سوال: میرے والد صاحب کے اکاؤنٹ میں پچھلے سال مارچ 2015 میں دس لاکھ (100,00,00) کا اماؤنٹ آیا، جس میں سے پچاس ہزار اُسی سال جولائی میں خرچ ہوئے، پھر اگست میں مزید دس لاکھ (100,0000) آئے اور والد صاحب بیمار تھے، ہوش و حواس میں نہیں تھے، البتہ اتنا ہوش ضرور تھا بیوی، بچوں اور بہنوں کے آنے پر ان کو پہچان لیتے تھے اور روشنی کی وجہ سے دن رات کا احساس بھی ہوجاتا تھا۔ کبھی حالت صحیح ہوتی تو سوالوں کے صحیح جواب بھی دیدیتے تھے، مگر قضائے حاجات بستر پر ہوتی تھی۔ پھر برضائے الٰہی نومبر 2016ء میں ان کا انتقال ہوگیا، اس لیے زکوٰة ادا نہ ہوسکی۔ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں کہ کُل کتنی زکوٰة ادا کرنی چاہیے؟ پسماندگان میں اہلیہ اور پانچ لڑکے ہیں، سب کُل رقم سے زکوٰة ادا کرنے پر متفق ہیں۔ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں کہ زکوٰة کی رقم نکال کر باقی رقم ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب: واضح ہو کہ زکوٰة واجب ہونے کے بعد اگر مرحوم زکوٰة ادا نہ کرسکا ہو اور اپنے مرنے کے بعد زکوٰة ادا کرنے کی وصیت بھی نہ کی ہو تو ورثاء پر مرحوم کی طرف سے زکوٰة ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر ورثا تبرعاً بخوشی بشرطیکہ سب ورثاء بالغ ہوں، مرحوم کی طرف سے زکوٰة ادا کرنا چاہیں، تو گنجائش معلوم ہوتی ہے، لہٰذا ساڑھے انیس لاکھ (1950000) روپوں میں اڑتالیس ہزار سات سو پچاس (48750) روپے زکوٰة واجب ہوگی، بقیہ انیس لاکھ بارہ سو پچاس (1901250) روپوں میں سے مرحوم کی بیوی کو دو لاکھ سینتیس ہزار چھ سو چھپن (237656) روپے اور ہر ایک بیٹے کو تین لاکھ بتیس ہزار سات سو اٹھارہ (332718) روپے ملیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11)
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ ۔۔۔وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ۔۔الخ

الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث

و فیھا ایضاً: (451/6، ط: دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار۔۔۔فأقرب العصبات الابن

البحر الرائق: (227/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
لو مات من عليه الزكاة لا تؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعات

رد المحتار: (426/2، ط: دار الفکر)
وفي القهستاني أن الزكاة والحج والكفارة من الوارث تجزيه بلا خلاف اه أي ولو بدون وصيته

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 370 Jan 09, 2019
Meeras ka maslah, masala, Miras, Masala e Meeras, Wirasat ka masala, masla, maslah, Masla E Taqseem E Meeras, Qanoon E Virasat, Wirasat Ki Taqseem Ka Masla, Wirasat Ke Masail, Qanoon-e-Meeras, The issue of inheritance, inheritence, Inheritance problems, Inheritance issues, Issues related to inheritance, Islamic law of inheritance, law of inheritance, problem of inheritance, procedure of inheritance, The inheritance problem, The rules of inheritance

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.