سوال:
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاته، محترم جناب مفتى صاحب !
عرض یہ ہے کہ اگر لڑکی والے شادی کے دن لڑکے والوں کے 15 ، 20 افراد کو اپنے گھر بلا کر رخصتی سے پہلے اپنے مہمانوں کے اکرام میں کھانا کھلائیں تو یہ عمل خلافِ سنت تو نہیں ہوگا؟
وضاحت فرمادیں، نوازش ہوگی۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: رخصتی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں یا مہمانوں کو کھانا کھلانا ولیمہ کی طرح مسنون اور مستحب نہیں ہے، لیکن حرام اور ناجائز بھی نہیں ہے، بلکہ جائز اور مباح امور میں سے ہے، اگر لڑکی والے نمود ونمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضا سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائیں تو مہمانوں کے لیے، اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا جائز ہے، اور اگر لڑکی والے خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے لڑکی والوں سے کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب زواج زینب بنت جحش، رقم الحدیث: 1430، 1054/2، ط: دار احیاء التراث)
عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»".
و فیہ أیضاً: (باب زواج زینب بنت جحش، رقم الحدیث: 1430، 1053/2، ط: دار احیاء التراث)
عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها»، قال: «وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم»".
مشکوۃ المصابیح: (255/1، ط: سعید)
عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ ﷺ الا لا تظلموا الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ الخ
فتاوی محمودیة: (باب العروس و الولیمة، 142/12، ط: فاروقیة)
"جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی