سوال:
مفتی صاحب ! ایک صاحب نے ایک شخص کو تجارت کے لیے متعین وقت اور متعین نفع کے ساتھ ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) روپے کی رقم دی، اب وہ شخص ہر مہینہ صاحب مال کو نفع کا پچاس (50) فیصد حصہ یعنی آٹھ ہزار (8000) روپے دیتا ہے، جو کہ متعین ہوا تھا، تو کیا نفع کی شکل میں ملنے والی یہ رقم صاحب مال کے لیے جائز ہے؟
اور کیا اس میں سود کا کوئی شبہ ہے؟
نیز کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
کچھ مقتدی حضرات بغیر کسی تحقیق کے امام صاحب پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ امام سود خوری کرتا ہے، جب کہ تحقیق کے بعد یہ پتا چلا ہے کہ امام سود خور نہیں، بلکہ بیع مضاربت کی شکل میں مذکورہ کاروبار میں شریک ہے، تو شریعت کی روشنی میں امام پر ایسا جھوٹا الزام عائد کرنے والوں کی کیا حیثیت ہے اور ایسے لوگوں کو کیا عذاب ہوگا؟
جواب: (1) مذکورہ صورت میں اگر ایک شخص کا سرمایہ ہو اور دوسرا اس کے سرمایہ سے کاروبار کرے٬ اس کا اپنا سرمایہ اس میں شامل نہ ہو تو یہ صورت "عقد مضاربت" کی ہے، جس میں ایک شخص دوسرے کے سرمایہ میں محنت کرکے کاروبار کرتا ہے، اور نفع دونوں میں باہمی رضامندی سے فیصدی تناسب سے طے ہوتا ہے،
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں نفع کو بظاہر فیصدی تناسب کے اعتبار سے طے کیا گیا ہے، جو کہ شرعا درست ہے، اس لئے یہ نفع حلال ہے، (یہ سود نہیں کہلائے گا) بشرطیکہ حرام ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
واضح رہے کہ نفع کے تناسب کو فیصدی اعتبار سے ہی طے کرنا ضروری ہے، مخصوص رقم متعین کرنے سے معاملہ ناجائز ہوجائے گا، لہذا مذکورہ صورت میں نفع اگر آٹھ ہزار روپے متعین کیا گیا ہو، تو معاملہ فاسد ہوجائے گا، اس لئے فیصدی اعتبار سے طے کرنا ضروری ہے.
(2) چونکہ ہمارے سامنے امام صاحب پر سودی کاروبار کا الزام لگانے اور اس الزام کی تردید کرنے کی حقیقت اور تفصیلات نہیں ہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ کسی قریبی مستند دارالافتاء سے رجوع فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایۃ: (241/3)
"المضاربۃ عقد یقع علی الشرکۃ بمال من أحد الجانبین، ومرادہ الشرکۃ في الربح، وہو یستحق بالمال من أحد الجانبین والعمل من الجانب الآخر ولا مضاربۃ بدونہا".
الدر المختار: (کتاب المضاربة، 430/8)
"ہي عقد شرکۃ في الربح بمال من جانب رب المال وعمل من جانب المضارب".
بدائع الصنائع: (کتاب المضاربة، 119/5)
"وشرط الوضیعۃ علیہما شرط فاسد؛ لأن الوضیعۃ جزء ہالک من المال فلا یکون إلا علی رب المال".
الدر المختار: (باب المضارب یضارب، فصل في المتفرقات، 447/8)
"وإن لم یظہر ربح فلا شيء علیہ أي المضارب".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی