سوال:
حضرت ! ایک شخص اپنی وصیت میں شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کے خلاف اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے، مثلاً: بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر حصہ دینا چاہتا ہے، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے۔
ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں، تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ہر وارث کو اس کا وہی حصہ دینا ضروری ہے، جو شریعت نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء في الوصیۃ للوارث)
عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ".
مشکاۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3074)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "لا وصیۃ لوارث إلا أن یشاء الورثۃ".
عمدۃ القاری: (باب لا وصیۃ للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی