سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک لڑکی کی شادی اسلام آباد میں ہوئی، سسرال والوں نے ایک شرط رکھی تھی کہ ہماری لڑکی کو اسلام آباد سے باہر نہیں لے کر جاؤگے، لڑکے نے قبول کرلی تھی، پھر چند سالوں کے بعد لڑکے کو بھتہ خوروں کی طرف سے دھمکیاں آئیں اور وہ دوسرے ملک چلاگیا اور اس کا کاروبار وغیرہ سب ختم ہوگیا، بلکہ لڑکے پر قرضہ چڑھ گیا، لڑکے کے بھائیوں نے قرضہ اتار دیا، اب لڑکا دوسرے ملک سے واپس آنا چاہتا ہے، لیکن وہ اسلام آباد میں نہیں رہنا چاہتا، لڑکی بھی اسلام آباد چھوڑنے پر راضی ہے۔ مفتی صاحب معلوم یہ کرنا ہے کہ اسلام آباد میں نہ رہنا وعدہ خلافی میں آئے گا یا نہیں؟
جواب: اسلام میں وعدہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مواقع پر وعدہ پورا کرنے کا ذکر ہے اور کہیں تو وعدہ پورا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے وعدہ کے بارے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا اسی طرح وعدہ خلافی اور عہد شکنی اس درجہ مذموم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو منافق کی علامت قرار دیا ہے، البتہ اگر کسی شخص نے وعدہ پورا کرنے کی نیت سے وعدہ کیا ہو، مگر کسی عارض شرعی یا طبعی کی وجہ سے اس کو پورا نہ کرسکا، تو ایسے شخص کو وعدہ خلافی کا گناہ نہ ہوگا، لہٰذا صورت مسئولہ میں حالت کی مجبوری کی وجہ سے اسلام آباد میں رہنے کا وعدہ پورا نہ کرنے سے شخص مذکور گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ پھر بھی اس پر استغفار کرتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیۃ: 34)
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡئُوۡلًاo
صحیح البخاری: (16/1، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان "
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (77/44، ط: دار السلاسل)
قال الحنفية: الخلف في الوعد حرام إذا وعد وفي نيته أن لا يفي بما وعد، أما إذا وعد وفي نيته أن يفي بما وعد فلم يف، فلا إثم عليه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی