سوال:
کیا اہل بیت کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" لگانا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بنی نوع انسان کی برگزیدہ ہستیوں کے مبارک ناموں کے ساتھ مختلف دعائیہ کلمات استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک دعائیہ کلمہ "علیہ السلام" بھی ہے، جس کا معنی ہے:اس پر سلامتی نازل ہو۔
اہل سنت و الجماعت کے ہاں اس دعائیہ جملے کا اصلاً استعمال انبیاء اور فرشتوں کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس جملے کو صرف انبیاء اور فرشتوں کے ناموں کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، البتہ انبیاء کے تذکرے کے ضمن میں اگر صحابہ کرامؓ یا دیگر حضرات کا ذکر ہو تو سب کے لیے "علیہم السلام" استعمال کرنا جائز ہے۔
لیکن چونکہ روافض کا شعار ہے کہ وہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ اور دیگر اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو انبیاء کی طرح معصوم مان کر ان کے مبارک ناموں کے ساتھ "علیہ السلام" کہتے ہیں، لہذا روافض کی مشابہت سے بچنے کے لیے اہل بیت کے لیے" علیہ السلام" کا دعائیہ کلمہ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (753/6، ط: دار الفکر)
وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلا يستعمل في الغائب ولا يفرد به غير الأنبياء فلا يقال علي - عليه السلام - ....والظاهر أن العلة في منع السلام ما قاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع
الدر المختار: (754/6، ط: دار الفکر)
(ويستحب الترضي للصحابة) (والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی