سوال:
مفتی صاحب ! کیا قبرستان کی چھت پر جنازہ گاہ تعمیر کر کے جنازہ ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ قبرستان بنیادی طور پر مردوں کی تدفین کے لیے وقف ہوتا ہے، لہذا اسے اسی مقصد کے لیے ہی استعمال کرنا چاہیے، اگر قبرستان میں وسعت ہو اور وہاں ایسی جگہ ہو کہ جہاں سامنے قبریں نہ ہوں، تو وہاں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
ہاں! اگر جنازہ گاہ کے لیے جگہ کی شدید تنگی ہو اور متبادل انتظام نہ ہو سکتا ہو، تو اس مجبوری کی حالت میں قبرستان کی زمین میں بقدر ضرورت قد آدم پلر لگا کر اوپر لینٹر ڈال کر، جنازہ گاہ کے لئے جگہ بنانے کی گنجائش ہے، البتہ اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1- اگر وہ جگہ کسی کی مملوکہ ہو تو اُس سے اِجازت لے کر اور اگر وقف شدہ ہو، تو پھر باہم مشورہ سے اُس جگہ پر پلر لگا کر تعمیر کی جا سکتی ہے۔
2- جس جگہ پلر لگائے جا رہے ہوں، وہاں قبریں نہ ہوں، یا اگر ہوں تو وہ اتنی بوسیدہ ہو چکی ہوں کہ میت کے اجزاء وغیرہ باقی نہ رہے ہوں۔
3- اس عمارت کے سامنے قبریں نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدۃ القاری: (باب ھل تنبش قبور مشرکي الجاہلیة، 174/4، ط: مکتبة الإدارۃ الطباعة المنیریة، دمشق)
"وأما المقبرۃ الداثرۃ إذا بُني فیہا مسجد لیصلي فیہا، فلم أر فیہ بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناہما واحد".
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 357)
"تکرہ الصلاۃ في المقبرۃ إلا أن یکون فیہا موضع أعد للصلاۃ".
کتاب النوازل: (318/14- 319- 320)
فتاویٰ محمودیه: (351/15، ط: دابھیل)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی