سوال:
مفتی صاحب ! میں نے 3 سال کے ماہانہ قسط کے منصوبے پر ایک دکان بک کی تھی، جو ابھی تک تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ بلڈرز کی پالیسی کے مطابق اگر میں دکان کی سو فیصد قیمت ادا کردوں تو مجھے ماہانہ کرایہ ملنا شروع ہوجائے گا، جب تک کہ مجھے دکان کا قبضہ میرے حوالے نہ کیا جائے۔ براہ کرم بتائیں کہ اس ماہانہ کرایے کی آمدن حلال ہے یا نہیں؟
جواب: مذکورہ معاملہ استصناع (آرڈر پر کوئی چیز بنوانے) کا ہے٬ جب مطلوبہ دوکان (shop) کے اوصاف معلوم اور متعین ہوں٬ اور اس کے عوض طے شدہ قیمت اور قسطوں کی صورت میں اس کی ادائیگی کی مدت بھی معلوم اور متعین ہو٬ تو اس دوکان کی خریداری کی حد تک معاملہ جائز ہے٬ لیکن ساری قیمت ایڈوانس دینے کی صورت میں ہر مہینے کرایہ کی مد میں رقم لینا جائز نہیں٬ کیونکہ کرایہ کسی منفعت کے عوض لیا جاتا ہے٬ مذکورہ صورت میں جب دوکان تیار ہی نہیں ہوئی تو کرایہ کو اس کا عوض قرار نہیں دیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (400/9، ط: زکریا)
"یجب أن یعلم بأن الاستصناع جائز في کل ما جری التعامل فیہ"
الفقه الإسلامي و أدلته: (402/4)
"وإنما یشمل أیضاً إقامۃ المباني وتوفیر المساکن المرغوبۃ وقد ساعد کل ذٰلک في التغلب علی أزمۃ المساکن ومن أبرز الأمثلۃ والتطبیقات لعقد الاستصناع بیع الدور والمنازل والبیوت الکنیۃ علی الخریطۃ ضمن أوصاف محددۃ"
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 388)
"اذا قال رجل لواحد من أہل الصنائع إصنع لي الشیئ الفلاني بکذا قرشاً وقبل الصانع ذٰلک انعقد البیع استصناعاً مثلاً تقاول مع نجارٍ علی أن یصنع لہ زروقاً أو سفینۃً وبین طولہا وعرضہا وأوصافہا اللازمۃ وقبل النجار انعقد الاستصناع"
الهداية: (266/6، ط: مکتبة البشری)
"الإجارۃ عقد علی المنافع بعوض … ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ … وتارۃ تصیر المنفعۃ معلومۃ بالتعیین"
الهندية: (الباب الاول فی تفسیر الاجارۃ و رکنھا و شرائطھا، 411/4)
"شرائط الصحۃ فمنھا: بیان المدۃ فی الدوروالمنازل والحوانیت، ومنھا: ان تکون الاجرۃ معلومۃ"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی