سوال:
محترم مفتی صاحب ! آپ کے فتاوی پڑھ کر میری اور مجھ جیسے کئی لوگوں کی دین کی سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
شیئرز سے متعلق آپ کا فتوی پڑھا کہ جب تک خریدے گئے، شیئرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے، انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ شرعاً کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ شرط ہے، لیکن مکان یا پلاٹ کی خرید و فروخت کے معاملے میں آپ نے فرمایا کہ مکمل رقم کی ادائیگی اور ٹرانسفر سے پہلے خریدار کا صرف بیعانہ دے کر صرف ایجاب و قبول کی بنیاد پر زمین آگے بیچنا جائز ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ ان دونوں سودوں میں ایک سودے میں ملکیت ٹرانسفر اور قبضے کے بغیر آگے بیچنا نا جائز ہے، جبکہ دوسرے سودے میں نہ ملکیت ٹرانسفر ضروری ہے اور نہ قبضہ ضروری ہے، حتی کہ سودے کی مکمل قیمت بھی نہیں ادا کی گئی، اس کے باوجود اسے آگے بیچنا جائز ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں۔
جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ اس بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ خریدار کا اشیاء منقولہ پر قبضہ کرنے سے پہلے انہیں آگے بیچنا جائز نہیں ہے، البتہ اشیاء غیر منقولہ پر قبضہ کرنے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا جائز ہے۔
اشیاء منقولہ سے مراد وہ اشیاء ہیں، جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہو، اور اشیاء غیر منقولہ سے مراد وہ اشیاء ہیں، جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا، جیسے: عمارت، پلاٹ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (180/5، ط: رشیدیة)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله. ولا يجوز إشراكه، وتوليته؛ لأن كل ذلك بيع۔
البحر الرائق: (126/6، ط: دار الكتاب الاسلامي)
قوله (صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز....
وفي البناية إذا كان في موضع لا يؤمن أن يصير بحرا أو تغلب عليه الرمال لم يجز، وإنما عبر بالصحة دون النفاذ أو اللزوم لأن النفاذ، واللزوم موقوفان على نقد الثمن أو رضا البائع، وإلا فللبائع إبطاله.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی