سوال:
مفتی صاحب ! میں سویڈن میں مقیم ہوں، پاکستان میں میں نے پالتو سفید کبوتر رکھے ہوئے ہیں، صرف اور صرف اپنی خوشی، شوق، اڑانے اور انڈے بچوں کے لیے۔
مفتی صاحب ! میں ایسا کوئی عمل بھی نہیں کرتا، جو کبوتروں کو تکلیف اور ایذا دینے کے زمرے میں آتا ہو، جیسے کہ میں پالتو سفید کبوتر صرف اور صرف شوق کے لییے پالتا ہوں، میں کبوتر اڑاتا ہوں تو ان کو اترنے سے نہیں روکتا، ان کے دانے پانی حتی کہ ان کی بیماری علاج کا بھی بہت خیال رکھتا ہوں اور نہ ہی کسی کے کبوتر پکڑتا ہوں، نہ ہی انکو پتھر مارتا ہوں، نہ ہی کبوتروں کے پیچھے بھاگتا ہوں، ہماری چھت کی چار دیواری بھی بہت اونچی ہے، جس سے دوسروں کی بے پردگی بھی نہیں ہوتی، حتی کہ میں ہر چھوٹی چھوٹی بات کا دھیان رکھتا ہوں۔
کیا ان ساری باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کبوتر پالنا جائز ہے ؟ برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ
جواب: صورت مسئولہ میں کبوتر پالنے کے سلسلے میں جن رعایتوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے مطابق گھر میں کبوتر پالنا جائز ہے، البتہ کبوتر بازی میں چونکہ وقت کا ضیاع ہے، اس لئے اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب الكنية للصبي، رقم الحدیث: 6203، 45/8، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أنس قال كان النبي صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقاً، وكان لي أخ -يقال له: أبو عمير- قال: أحسبه فطيم، وكان إذا جاء قال: يا أبا عمير، ما فعل النغير! نغر كان يلعب به، فربما حضر الصلاة وهو في بيتنا، فيأمر بالبساط الذي تحته فيكنس وينضح، ثم يقوم ونقوم خلفه فيصلي بنا".
مرقاة المفاتیح: (649/4)
لا بأس أن یعطی الصبي الطیر لیلعب بہ من غیر أن یعذبہ
سنن ابی داؤد: (194/2)
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنه ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رای رجلا یتبع حمامۃ فقال شیطان یتبع شیطانۃ
رد المحتار: (284/5)
یکرہ امساک الحمامات ولو فی برجھا ان کان یضر بالناس بنظر اوجلب .... واما للاستیناس فمباح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی