سوال:
مفتی صاحب ! میں نماز عام حالت میں کھڑے ہو کر پڑھتا ہوں، جیسے سارے لوگ پڑھتے ہیں، لیکن اگر مسجد میں زیادہ دیر بیٹھتا ہوں تو کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کیا مسجد میں بلا عذر کرسی کا استعمال درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ آج کل مساجد میں کرسیوں پر بیٹھنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے، لوگ معمولی عذر کی بنا پر کرسی کا استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ مسجد کے آداب اور تواضع کے خلاف ہے، نیز بلاضرورت کرسیوں کو مساجد میں لانے سے اغیار کی عبادت گاہوں سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے، اس کے برعکس زمین پر بیٹھنے میں ادب اور تواضع زیادہ ہے، لہذا مسجد میں بلا عذر کرسی کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 322، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن تناشد الأشعار في المسجد، وعن البيع والاشتراء فيه، وأن يتحلق الناس فيه يوم الجمعة قبل الصلاة.۔
و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 332، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا نصر بن علي، قال: حدثنا عيسى بن يونس، عن الأعمش، عن أبي سفيان، عن جابر، عن أبي سعيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى على حصير.وفي الباب عن أنس، والمغيرة بن شعبة. وحديث أبي سعيد حديث حسن. والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم. إلا أن قوما من أهل العلم اختاروا الصلاة على الأرض استحبابا. وأبو سفيان اسمه طلحة بن نافع.
و فیه ایضا: (رقم الحدیث: 372، ط: دار الغرب الاسلامی)
وقد روي هذا الحديث عن إبراهيم بن طهمان بهذا الإسناد، إلا أنه يقول عن عمران بن حصين قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة المريض؟ فقال: صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی