سوال:
اگر کوئی کافر اسلام قبول کرنے کی نیت سے کسی عالم کے پاس جائے، لیکن راستے میں اس کا انتقال ہوجائے اور اس نے زبان سے کلمہ کا اقرار نہ کیا ہو تو اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ ایسا شخص مسلمان شمار ہوگا یا کافر؟
جواب: واضح رہے کہ کسی کافر کے ایمان لانے کے لیے صرف دل سے ایمان لانا کافی نہیں ہے، بلکہ دنیاوی احکام میں اس کے ایمان کے مفید ومعتبر ہونے کے لیے "اقرار باللسان" (زبان سے اس کا اقرار کرنا) بھی شرط ہے، کیونکہ اسلام کا ایک حكم دنيا كے اعتبار سے ہے اور ایک حكم آخرت كے اعتبار سے ہے۔
دنیا کے اعتبار سے ایمان اور اسلام کا حکم یہ ہے کہ جو شخص دنیا میں ایمان اور اسلام قبول کر کے "اقرار باللسان" (زبان سے اقرار) کر لے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا، مثلاً: اس کی جان و مال کا تحفظ، اس کے ساتھ نکاح، وراثت، اس کی اقتداء میں نماز، اگر فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ وتدفین وغیرہ میں اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا، اور آخرت کے اعتبار سے اس کا حکم یہ ہوگا کہ وہ "مخلد فی النار" نہیں ہوگا، یعنى وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ میں نہیں جلے گا، بلکہ کبھی نہ کبھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔
اور اگر کسی کے دل میں ایمان ہو اور اس نے "اقرار باللسان" نہ کیا ہو تو اس پر دنیا میں مسلمانوں کے احکام جارى نہیں ہوں گے، البتہ آخرت میں اس کے ایمان کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟ اس میں تفصیل ہے:
اگر اس نے "اقرار باللسان" کسی عذرِ شرعی کی وجہ سے ترک کیا ہو، مثلا: وہ شخص گونگا ہو یا وہ شخص دل میں ایمان لانے کے بعد فورا مرگیا اور "اقرار باللسان" کی اسے مہلت ہی نہیں ملی یا مہلت تو ملى ،مگر "اقرار باللسان" کى صورت میں اسے جان جانے کا خوف تھا، اس لیے اقرار نہیں کیا تو بالاتفاق ایسے شخص پر ایمان کا اخروی حکم جاری ہوگا، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مؤمن شمار ہوگا اور "مُخَلَّد فِی النَّار" نہیں ہوگا اور دنیا میں زبان سے اقرار کا نہ پایا جانا اس کے لیے آخرت میں مضر نہیں ہوگا۔
اور جس شخص نے مہلت اور قدرت کے باوجود "اقرار باللسان" نہ کیا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اس سے اقرار کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اس نے باوجود قدرت ہونے کے اقرار نہیں کیا تو یہ "کفرِ عناد" (جان بوجھ کر کفر اختیار کرنا) ہے، ایسا شخص بالاتفاق "مخلد فی النار"ہوگا (یعنى وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلے گا)، لہذا اس کا صرف دل میں ایمان لانا مفید اور معتبر نہیں ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اس سے مطالبہ ہی نہیں کیا گیا، مگر اس کے دل میں یہ نیت تھی کہ اگر اس سے مطالبہ کیا جائے گا تو وہ اقرار کرے گا، ایسے شخص کے بارے میں اہلسنت والجماعت کے دو قول ہیں:
۱) جمہور محدثین کے نزدیک اس کا ایمان معتبر ومفید نہیں اور یہ شخص "مخلد فی النار" ہوگا۔
۲) امام ابو حنیفہ اور بعض متکلمین مثلا: امام اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی رحمہم اللہ کے نزدیک ایسے شخص کا ایمان معتبر ہوگا اور ایسا شخص "مخلد فی النار" نہیں ہوگا۔
(ماخوذ باختصار از "درس مسلم شرح صحیح مسلم": 184/1۔ 185، مؤلفہ: حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ، ط: ادارۃ المعارف، کراچی)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں اگر کوئی شخص دل سے ایمان قبول کر لے اور اسے کسی کے سامنے "اقرار باللسان" (زبان سے ایمان لانے کا اقرار) کرنے کی مہلت نہ ملے تو ایسا شخص اخروی حکم کے اعتبار سے مؤمن ہوگا، البتہ دنیا میں اس پر مسلمانوں کے احکامات جاری نہیں ہوں گے، کیونکہ دنیوی احکام جاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے حاکم یا کم از کم دو عادل مسلمانوں کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اقرار کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 2598، 295/4، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن أبي سعيد الخدري، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يخرج من النار من كان في قلبه مثقال ذرة من الإيمان"، قال أبو سعيد: فمن شك فليقرأ: {إن الله لا يظلم مثقال ذرة}. وقال: هذا حديث حسن صحيح.
المعجم الأوسط: (رقم الحدیث: 2426، 46/3، ط: دار الحرمین)
حدثنا أبو مسلم قال: نا أبو عاصم، عن يونس بن الحارث قال: حدثني أبو مشرح أو مشرس قال: سمعت أبا شيبة الخدري يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من قال لا إله إلا الله دخل الجنة".
وقال: لا يروى هذا الحديث عن أبي شيبة إلا بهذا الإسناد، تفرد به أبو عاصم.
شرح المقاصد: (248/2، ط: دار المعارف النعمانیة، لاھور)
"فان الاقرار حینئذ شرط لاجراء الأحکام علیہ فی الدنیا من الصلاة علیہ وخلفہ، والدفن فی مقابر المسلمین والمطالبة بالعشور والزکاوات ونحو ذٰلک".
شرح الفقه الأکبر: (ص: 140، ط: رحیمیه، دیوبند)
"أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب وانما الإقرار شرط لإجراء الأحکام فی الدنیا، لما ان تصدیق القلب امر باطنی لابد لہ من علامۃ".
المسامرة شرح المسايرة: (الخاتمة في بحث الايمان، ص: 277، ط: دار الكتب، بشاور)
"والإقرار شرط إجراء الأحكام هو بعينه القول المختار عند الأشاعرة والمراد أحكام الدنيا من الصلاة خلفه ودفنه في مقابر المسلمين وغير ذلك.
قوله: (ودفنه في مقابر المسلمين وغير ذلك) : كعصمة الدم والمال ونكاح المسلمة ونحوها. قال في شرح المقاصد : ولا يخفى أن الإقرار لهذا الغرض أي لإجراء الأحكام لا بد أن يكون على وجه الإعلان والإظهار للإمام وغيره من أهل الإسلام بخلاف ما اذا كان لإتمام الإيمان فإنه يكفي مجرد التكلم وإن لم يظهر على غيره".
الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الجهاد، باب المرتد، 221/4، ط: دار الفكر)
"الإيمان) وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة، وهل هو فقط أو هو مع الإقرار؟، قولان وأكثر الحنفية على الثاني، والمحققون على الأول والإقرار شرط لإجراء الأحكام الدنيوية بعد الاتفاق على أنه يعتقد متى طولب به أتى به، فإن طولب به فلم يقر فهو كفر عناد قاله المصنف. (قوله: لإجراء الأحكام الدنيوية) أي من الصلاة عليه، وخلفه والدفن في مقابر المسلمين والمطالبة بالعشور، والزكوات ونحو ذلك ولا يخفى أن الإقرار لهذا الغرض لا بد أن يكون على وجه الإعلان، والإظهار على الإمام وغيره من أهل الإسلام، بخلاف ما إذا كان لإتمام الإيمان فإنه يكفي مجرد التكلم، وإن لم يظهر على غيره كذا في شرح المقاصد".
حاشيه الشهاب علي تفسير البيضاوي: (103/2، ط: دار صادر- بيروت)
"ولا بد من أن يكون إقراره أيضاً على وجه الإعلان للمسلمين بخلاف ما إذا كان لإتمام الإيمان فإنه يكون بمجرد التكلم، والخلاف في القادر على التكلم لا العاجز كالأخرس ...الخ".
كشاف القناع عن متن الإقناع: (كتاب الحدود، باب المرتد، 173/6، ط: دار الكتب العلمية)
"قال في "شرح المقاصد": ويعتبر في الإقرار لإجراء أحكام الدنيا أن يكون على وجه الإعلان والإظهار لأهل الإسلام، أي عدلين منهم".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی