سوال:
کیا یہ بات صحیح ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کسی دوسرے شخص میں منتقل ہوجاتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ "عقیدہ آخرت" (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا) تمام آسمانی مذاہب، آسمانى کتابوں اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں کا بنیادى عقیدہ ہے، چنانچہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے عقیدہ توحید اور رسالت کے بعد "عقیدہ آخرت" (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) پر ایمان لانے کی تبلیغ کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ عالم ایک مرتبہ فنا ہو جائے گا، پھر اللہ تعالى دوبارہ پہلى حالت پر زندہ کریں گے اور تمام مخلوق دوبارہ زندہ ہوگی اور انہیں دنیا میں اپنے کیے ہوئے ہر اچھے اور برے کام کی جزا اور سزا ملے گی، یہ عقیدہ اسلام کے بینادى عقائد میں سے ہے جو قرآن کریم کى متعدد آیات، احادیث متواترہ، انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کے اجماع سے ثابت ہے، لہذا اس کا انکار کفر ہے۔
ہندو مذہب کے ماننے والے "عقیدہ آخرت" کے منکر ہیں، وہ اس کے بجائے "آواگون" (عقیدہ تناسخ) پر یقین رکھتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ قیامت اور آخرت کوئى چیز نہیں ہے، بلکہ کسى بھى شخص کى موت کے بعد اس کى روح کسی دوسرے جسم میں منتقل ہوتى رہتى ہے، نیک لوگوں کى روحیں بطور ِانعام اچھے جسموں میں منتقل ہوتی ہیں اور برے لوگوں کی روحیں بطورِ سزا برے جسموں، مثلا: گدھا، کتا، بلى وغیرہ میں منتقل ہوجاتی ہیں، روحوں کے مختلف جسموں میں منتقل ہونے کے اس عقیدے کو "آواگون" (عقیدہ تناسخ) کہتے ہیں۔
"عقیدہ تناسخ" سراسر باطل ہے اور قرآن کریم کى واضح آیات کے بالکل خلاف ہے، نیز یہ عقیدہ بالکل مہمل اور خلافِ عقل بھی ہے، اس لیے کہ سزا اور جزا کا قانون یہ ہے کہ جس کو سزا دى جائے تو اسے سزا کا احساس ہونا چاہیے کہ مجھے میرے برے عمل کى وجہ سے یہ سزا ملى ہے، جبکہ "عقیدہ تناسخ" کے مطابق موت کے بعد جس شخص کى روح کو کسی برے جسم میں منتقل کیا جاتا ہے تو اسے اس بات کا قطعى علم نہیں ہوتا ہے کہ میں پہلے کون سے جسم میں تھا اور اس بد شکل جسم میں کس گناہ کى وجہ سے آیا ہوں؟حالانکہ اگر کوئى شخص کسى شہر میں سالہا سال تک رہ کر دوسرے شہر میں منتقل ہو تو اسے اپنے سابقہ شہر کے اکثر واقعات یاد ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کو بھى بتاتا ہے، لہذا یہ بات خلافِ عقل بھی ہے کہ ایک شخص ستر سال کى زندگى گذارے اور "آواگون" (عقیدہ تناسخ) کى بنا پر مرنے کے بعد کسى دوسرے جسم میں اس کى روح منتقل ہو جائے اور اسے سابقہ احوال بھول جائیں، لہذا معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ بے بنیاد اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (العنکبوت: الآیة: 19)
أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌo
و قوله تعالی: (الأحقاف: الآیة: 33)
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
و قوله تعالی: (یس، الایة: 78، 79)
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌo قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌo
و قوله تعالی: (الحج: الایة: 5، 8)
يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍo ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِ الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِo وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍo
شرح العقیدہ الطحاویة: (ص: 454)
"وقالت فرقۃ: مستقرھا بعد الموت ابدان۔۔۔۔ فتصیر کل روح الی بدن حیوان یشاکل تلک الروح، وھذا قول التناسخیۃ منکری المعاد، وھو قول خارج عن اھل الاسلام کلھم".
(ومستفاد از "عقائد اسلام"، ص: 116- 121، مصنفه: شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوى رحمه اللہ، ط: ادارہ اسلامیات)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی